کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو کے پروگرام ’’جرگہ‘‘ میں میزبان سلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی طلعت حسین نے کہا ہے کہ فائنل کال میں نیشنل موبائلزیشن نہیں ہوسکا،تحریک انصاف کو اندرونی طور پر بڑا دھچکہ لگا ہے ورکرز کا اعتماد کم ہوا ہے ، تنظیمی ڈھانچہ ان کا ہلا ہوا ہے،حکومت کو اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ دھرنا ناکام ہوا ہے غصہ کم نہیں ہوا ہے،حکومت کی طرف سے مس ہینڈلنگ تھی ،عمران خان نے کسی شخص کو اوپر نہیں آنے دیا کوئی لیڈر شپ نہیں بن سکی پنجاب میں کوئی قیادت ڈیولپ نہیں ہوئی ،طلعت حسین نے کہا کہ فائنل کال دینے کا مفروضہ یہی تھا کہ ایک نیا بیانیہ دینے کی ضرورت ہے اور وہ بیانیہ ہے تحریک کا کامیابی کا پچھلے دھرنے میں علی امین نے کوئی خاص کامیابی نہیں دکھائی جس کی وجہ سے یہ تاثر جارہا تھا کہ پی ٹی آئی سڑک گرم نہیں کرسکتے۔یہ سب جانتے تھے کہ عمران خان نے اس طرح سے ریلیز نہیں ہونا نہ ہی احتجاج سے عدالتی فیصلے بدلیں گے ۔ ان کاخیال تھا کہ بشریٰ بی بی کا عنصر زیادہ موبائلز کرپائے گا یہ سب مفروضے تھے ۔ انہیں شاید بہت عرصہ پہلے ہی بتا دیا گیا تھا کہ آپ کو راستے میں کوئی تکلیف نہیں دی جائے گی لیکن آپ ڈی چوک پہنچ کر واپس چلے جائیں گے۔ بشریٰ بی بی کو ساتھ لانے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ ایک خاتون جب ٹرک پر کھڑی ہوں تو اس کی وجہ سے بہت سی شیلنگ وغیرہ نیوٹرلائز ہوجاتی ہے ۔حکومت کے انہیں روکنے میں ناکامی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ بشریٰ بی بی ان کے ساتھ تھیں۔ نقصانات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دو دن میں جو استعفیٰ دیا گیا ۔ اس دفعہ ورکر کی سطح پر بہت ڈیمیج ہوا ہے یہ بھی ایکسپوز ہوگیا ہے کہ پنجاب سے لوگ نہیں نکال سکتے۔ ساؤتھ پنجاب تو بہت دور ہے لیکن اسلام آباد کے جب صحافی پہنچ سکتے ہیں تو اسلام آباد پنڈی سے لوگ کیوں نہیں نکلے۔فائنل کال میں نیشنل موبائلزیشن نہیں ہوسکا۔ پارٹی کی قیادت میں سے چاہے وہ بشریٰ ہوں علی امین ہوں کوئی ڈی چوک سے آگے نہیں جانا چاہتا تھا نہ ہی قریب آنا چاہتا تھا جب انہوں نے دیکھا کہ ساڑے تین سو لوگ پہلے ہی پہنچ گئے ہیں تو ان کے لیے سنگجانی اچھا موقع تھا اس پر اتفاق رائے ہوا کہتے ہیں عمران خان نے انکار کر دیا میرا ماننا یہ ہے کہ ان کو سب سے بڑا خطرہ تھا اپنے ورکر سے جن کو وہ کہہ کر لائے تھے کہ ڈی چوک آنا ہے۔ یہ جو ہجوم اپنے ساتھ لے آئے تھے سنگجانی پر رک نہیں سکتے تھے لوگوں نے ان کی گاڑی کو پکڑ کر یہاں لے آنا تھا۔عمران خان بھی ڈی چوک پہنچنے کی تاریخ نہیں رکھتے میرا ماننا یہ ہے کہ عمران خان نے اگر کہا بھی تھا ڈی چوک کا سب کو پتہ تھا انہیں رکنا سنگجانی ہے۔ طلعت حسین نے مزید کہا کہ میں نے ایک اسپتال کا وزٹ کیا جس کا نام پمز ہے وہاں ڈاکٹروں نے بتایا کہ ان کے پاس دو گولی سے لگی لاشیں آئی ہیں اور جب میں نے ان سے پوچھا کہ کیا یہ دھرنے سے آئے ہیں تو انہوں نے کہا ہمیں نہیں پتہ ان کے لواحقین کون ہیں ہم نے کوئی تحقیق نہیں کی ہے لہٰذا حتمی طو رپر کچھ نہیں کہہ سکتے۔ بیس لاشیں اگر دس پمز جائیں اور دس پولی کلینک جائیں کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو اور پھر لاشیں ٹرانسپورٹ کیسے ہوئیں۔278 کی بات نہیں کرتا لوگ تو پانچ سو تک چلے گئے ہیں اور سوشل میڈیا پر نو سو تک کی بات ہو رہی ہے سلمان اکرم راجہ نے بیس کا فیگر دیا جس میں سے آٹھ کو کنفرم کیا۔