حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن مشاہدہ تو میرا وسیع تر ہو چلا ہے کہ میری کچھ واقف خواتین نے اپنی جنسی نسوانیت کے کچھ پوشیدہ راز میں ہمیں شامل کرکے حیران ہونے کا موقع دیا۔ ویسے حیران ہونے والوں میں سے ہم نہیں ہیں کیونکہ سائنس کی نت نئی کارستانیاں کانوں میں پڑتی رہتی ہیں کہ ’’اب ایسا ہونے لگا ہے، اب ویسا ہونے لگا ہے‘‘۔ یہ تو دنیاوی سائنسی معلومات ہیں جس کا علم ہم سبھی کو ہونا چاہئے مگر حیرانی اس وقت ہوتی ہے جب اپنے حلقہ و احباب کی کچھ خواتین نہیں بلکہ کئی ایک خواتین یہ انوکھے تجربے کے مشکل ترین نسوانی مراحل سے گزریں جبکہ وہ با آسانی حاملہ ہو سکتی ہیں اور تولیدی و تخلیقی عمل سے باآسانی گزر سکتی ہیں مگر جانے کیوں خواتین بعض مرتبہ اپنی خود انحصاری ، خود پرستی اور خود ستائشی کو اپنے انوکھے کرتوت سے کیش کرانا چاہتی ہیں بلکہ اپنے منفرد انداز کی دھاک اپنی دوستوں اور معاشرے کے دیگر احباب پر بٹھانا چاہتی ہیں کہ کچھ خواتین ایسی خو اپنے میں رکھتی ہیں ۔ ہم نے کہا کہ حیران ہمیں نہیں ہونا چاہئے کیونکہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ کائنات کی بڑی سے بڑی ناممکن اشیا کو بھی انسان تسخیر کر سکتا ہے تو پھر جب شمس و قمر تک انسان کی رسائی ممکن ہے تو پھر مصنوعی طریقے سے اپنی جان کو کیوں جوکھوں میں ڈالنا غیر فطری طریقے سے۔ہماری ایک جرمن دوست جو لندن کی ایک یونیورسٹی میں لیکچرار ہے وہ اپنی 50ویں سالگرہ کے دو دن بعد آپریشن کے ذریعے اپنی دوسری بیٹی کی ماں بنی ہم بہت سی دوست حیران نہیں تھیں کیونکہ جرمن دوست ہمیں بتا چکی تھی کہ وہ کئی سال پہلے اپنے ایگز فریز کراچکی ہیں پھر وہ جب چاہے ماں بن سکتی ہیں۔ ان کی پہلی بیٹی تب پیدا ہوئی جب وہ 45 سال کی تھی مگر وہ نارمل طریقے سے کنسیو نہ کرسکیں تو شکر ہے کہ اس نے اپنی بھرپور جوانی میں ایک اہم فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ اپنے ایگز فریز کرا دیں اور عمر کے یا ڈھلتی جوانی کے کسی بھی حصے میں وہ ماں بن سکیں۔ پہلے بچے کی حمل اور پیدائش کا تو ہمیں اندازہ نہیں مگر دوسرے بچے میں اسکی فکر اور ہردم ہارلی اسٹریٹ پر اس کا بار بار جانا وہ تین سال پہلے کے واقعات ہمیں اچھی طرح یاد ہیں کہ اسے ریگولر انجیکشن لگانا پڑتے اپنے اینڈو کرائنولو جسٹ اور فرٹیلٹی ماہرین سے ہردم ملنا ہوتا تھا۔ دوسرا یہ کہ اس کے شوہر کہیں بھی ہوتے تھے مگر انہیں تمام کام چھوڑ کر بیوی کو ریگولر انجیکشن لگانا پڑتا تھا۔ پھر یہ فکر اور تمام ریگولر قسم کے علاج سے تب جان کسی حد تک چھوٹی جب 50ویں سالگرہ کے دو دن بعد بچی کی آپریشن کے ذریعے پیدائش ہوئی۔ اس کے بعد کے چیک اپ تو پھر عام روٹین کے تھے مگر وہ جو ایک دشوار مرحلہ تھا ۔مصنوعی سی مگر فکرات سے بھرپور حاملہ ہونے کا وہ کافی حد تک اور کسی حد تک مکمل ہو چکا تھا، اب بچی تین سال کی ہے نہایت خوبصورت ، جرمن اور ایشیا کا حسین سا امتزاج ہے۔ خواتین میں اپنے انڈے (بیضہ) منجمد کرانے کا رحجان بڑھتا ہی جا رہا ہے اور یہ صرف یورپین خواتین ہی آگے نہیں ہیں بلکہ ایشین بھی اس تن آسانی کی دوڑ میں شامل ہو چکی ہیں۔ اس رحجان کو تن آسانی کہیئے، سائنس کی جدید تیکنک سے فائدہ اٹھانا کہیئے، فیشن کہیئے، سستی کہیئے یا پھر اپنے کو فکر فری رکھنے کا ڈھنگ کہیئے، دولت کا خرچ کرکے خود کر پراعتماد بنانا کہیئے؟ ابھی ہماری ایک دوست کی کولیگ کو یہ ارادہ کرتے سنا گیا کہ وہ ابھی تک اپنے لئے کوئی ساتھی نہ ڈھونڈ سکیں اور جانے پرفیکٹ پارٹنر کب ملے یا نہ ملے تو میں کیوں نا اپنے ایگز فریز کراکے بے فکر ہوجاؤں کہ جب بھی کوئی ملے تو ہم فیملی بنانے کا ارادہ کرلیںگے۔ ایک اور ہماری ہائی پروفائل رشتے دار کی بچی بھی اس ایگز فریز کرنے والے پروسیس سے گزرنے والی ہے ۔بچی نے تہیہ کرلیا کہ جب تک کوئی اچھاپرکشش شخص نہیں مل جاتا تب تک مجھے انتظار نہیں کرنا اور اپنے ایگز فریز کرانے ہیں۔ کیونکہ ایشین مائیں اپنی بیٹیوں کو پرزور طریقے سے اصرار کرتی ہیں کہ شادی کرو ورنہ بچے ہونے میں دقت پیش آئے گی۔ بڑی عمر میں شادی کرنے کا یہ نقصان ہے۔ اسی لئے بہت ہی اچھے کیرئیر رکھنے والی خواتین نے اپنی ماؤں کو تسلی دے دی ہے کہ آپ فکر مت کیجئے ہم نے ہر عمر میں بچہ پیدا کرنے کا بندوبست کر لیا ہے۔ یعنی ایک خاتون اگر کسی وجہ سے بچہ پیدا کرنے کی پوزیشن میںنہیں ہے اور ایک عمر کے بعد جو عموماً دیکھنے کو ملتا ہے کہ زمین زرخیزی میں کمی آجاتی ہے تو ایسے میں بھی آپ خاندان بنانے کا سوچ سکتے ہیں۔ سائنس نے صنف نازک کیلئے بھی آسانی کے مختلف مواقع فراہم کر دیئے کہ وہ کسی بھی عمر میں ماں بھی بن سکتی ہیں اور اب عورت بانجھ بھی نہیں رہ سکتی۔ مگر یہ بھی ہے کہ جہاں سائنس خواتین کے بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت کا دورانیہ بڑھانے میں کامیاب رہی ہے وہیں اس عمل کو تاعمر جاری رکھ پانا شاید کبھی ممکن نہ ہو۔ نئی ایجادات آنے تک۔ہماری ایک ڈاکٹر دوست کے بقول کہ خواتین میں ایگز فریز کرنے کا رحجان کہیں بہت نہ بڑھ جائے کہ خواتین جو کیرئیر بنا چکیں اور ان کےپاس ایگز فریز کرنے کیلئے اخراجات برداشت کرنے کی کمی نہیں تو وہ ضرور اس رحجان میں اضافہ کریں گی۔ دوسری وہ خواتین جو کیرئیر بنانا چاہتی ہیں وہ بھی اس طریقہ علاج کی خوگر رہیں گی۔ قانون قدرت کہ جو چیز انسانی دسترس میں آجائے تو سبھی کچھ ممکنات میں ہو جاتا ہے۔