پشاور(ارشدعزیز ملک ) ایک سینئر سیکیورٹی افسر نے ایک ایسے وقت میں خیبرپختونخوا کی پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کی کوشش پرسوال اٹھایا ہے جب فوجی اہلکار" دہشت گردوں "کے خلاف لڑائی میں اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں۔یہ افسر خیبرپختونخواہ کی صوبائی اسمبلی میں منظور ہونے والی اس قرارداد ( جو کہ پی ٹی آئی کے رکن نے پیش کی تھی) کے حوالے سے بات کررہا تھا جس میں " دہشت گرد " گروپوں کےساتھ مذاکرات کی حمایت اور صوبے میں فوجی آپریشن کی مکمل مخالفت کی گئی تھی۔ 6 دسمبر 2024 کو خیبر سے پی ٹی آئی کے ایم پی اے عبدالغنی آفریدی اور بنوں سے عدنان وزیر نے صوبائی اسمبلی میں ایک قرارداد پیش کی، جس میں بنوں اور خیبر میں شدت پسندوں کے خلاف جاری فوجی آپریشن کی مخالفت کی گئی۔ قرارداد میں کہا گیا، "آپریشنز مسئلے کا حل نہیں ہیں، کیونکہ ماضی میں کئی آپریشنز کیے جا چکے ہیں۔ ایک پائیدار حل مذاکرات کے ذریعے تلاش کیا جانا چاہیے۔" وزیراعلیٰ کے مشیر برائے اطلاعات، محمد علی سیف نے جنگ کو بتایا کہ امن و امان برقرار رکھنا صوبائی حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ ہم اپنے شہریوں کی حفاظت کے لیے مناسب اقدامات کر رہے ہیں۔ خیبرپختونخوا اسمبلی کے اراکین عوام کے نمائندے ہیں اور اپنے حلقوں کے حالات اور ضروریات کے مطابق اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی کی پالیسی بالکل واضح ہے۔ صوبائی حکومت کی اجازت کے بغیر کوئی آپریشن نہیں کیا جائے گا۔ پی ٹی آئی حکومت یہ فیصلہ کرے گی کہ کب اور کہاں ایسے آپریشنز ضروری ہیں۔ حکومت کسی کو بھی بغیر مشاورت کے صوبے میں آپریشن کی اجازت نہیں دے گی۔ اسی افسر نے دیادلایا کہ2022 میں، پی ٹی آئی نے ٹی ٹی پی گروپوں کے ساتھ مذاکرات، ان کی آبادکاری، ان کے مطالبات کو جائز قرار دینے، اور حتیٰ کہ انہیں دفاتر فراہم کرنے کی حمایت کی پالیسی اپنائی۔ اور اب ایک بار پھر شدت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائیوں کی مخالفت میں ایک قرارداد پاس کی گئی ہے، جس میں بنوں کے علاقے جانی خیل اور تیراہ شامل ہیں حالیہ مہینوں میں، بنوں، جانی خیل اور تیراہ وادی میں پاکستان آرمی کے کئی افسران اور سپاہیوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ سیکیورٹی حلقوں نے سوال اٹھایا کہ کیا یہ فوجی جوانوں کی جانیں پی ٹی آئی کے سیاستدانوں کے لیے قیمتی نہیں ہیں، جو کھلے عام ان شدت پسند گروہوں کی حمایت کر رہے ہیں؟ "یہ نہ بھولیں کہ 2002 سے 2007 کے دوران بھی خیبر پختونخوا اسمبلی میں اسی نوعیت کی قراردادیں پاس کی گئیں، جنہوں نے صرف دہشت گردی کو ہوا دی۔ امن بحال کرنے کے لیے بے شمار آپریشنز اور قربانیاں دی گئیں ۔ایک اعلی سکیورٹی اہلکار نے جنگ کو بتایا کہ پی ٹی آئی حکومت کے ناقص فیصلوں کی وجہ سے سیکیورٹی اہلکار اور صوبے کے عوام اب دہشتگردی کی نئی لہر کا سامنا کر رہے ہیں۔ کیا خیبر پختونخوا حکومت کا یہ اقدام واضح طور پر یہ ظاہر نہیں کرتا کہ پی ٹی آئی ان شدت پسند گروہوں کی حمایت کر رہی ہے؟ انھوں نے کہا کہ ایسے دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کیسے ممکن ہیں، جو کھلے عام آپ کے ملک، عوام، اور سیکیورٹی فورسز کے خلاف جنگ کر رہے ہیں؟اہلکار نے کہا کہ پائیدار امن نہ تو ماضی میں ممکن تھا اور نہ ہی مستقبل میں ہوگا، جب تک ان شدت پسندوں کا مکمل خاتمہ نہ کیا جائے۔ دہشتگردوں کے ساتھ مذاکرات اور ان کی آبادکاری حالات کو بہتر کرنے کے بجائے مزید خراب کر دیتی ہے۔ خیبر پختونخوا کے عوام اس حقیقت کو سمجھتے ہیں، اور بہتر ہوگا کہ حکومت بھی اس بات کو سمجھے۔