اسلام آباد(نمائندہ جنگ) وفاقی وزیر مذہبی امور چوہدری سالک حسین نے مدارس کی رجسٹریشن سے متعلق اپنے بیان میںکہا ہے کہ مدارس کی رجسٹریشن ایک دیرینہ ضرورت ہے جس کے لئے مختلف ادوار میں مدارس کی انتظامیہ، جید علماءکرام اور سیاسی رہنماؤں سے مشاورت ہوتی رہی ہے۔حکومت نے مولانا فضل الرحمان کے مطالبات مانتے ہوئے پارلیمان سے بل منظور کروایا اور اپنی کمٹمنٹ پوری کی۔ وفاقی وزیر مذہبی امور نے وضاحت کی کہ چند قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے مدارس رجسٹریشن بل کو قانونی شکل دینے میں کچھ وقت درکار ہے۔اس کا ہر گز مقصد نہیں کہ اس کو بنیاد بنا کر مدارس رجسٹریشن کا پورا عمل ہی رول بیک کر دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ مدارس بھی تعلیمی ادارے ہیں جو صرف وزارت تعلیم کے تحت ہی آتے ہیں۔مدارس انتظامیہ کو رجسٹریشن کے لئے قانونی پیچیدگیوں اور طویل عمل کا سامنا تھا۔ سالہا سال کی عرق ریزی کے بعد ڈائریکٹوریٹ جنرل برائے مذہبی تعلیم، وزارت تعلیم کے تحت ون ونڈو نظام مرتب کیا گیا۔ڈائریکٹوریٹ جنرل برائے مذہبی تعلیم کے تحت 18 ہزار مدارس رجسٹرڈ ہیں۔مدارس کی رجسٹریشن کے مطالبہ کی وجہ سے تمام عمل دوبارہ شروع ہوا تو پہلے سے کی گئی تمام محنت ضائع ہو جائے گی۔مدارس تعلیمی ادارے ہیں نہ کہ صنعتی ادارے۔ اس مطالبے کو ماننے کا مطلب یہ ہوگا کہ آئندہ کوئی بھی کسی پیشہ کو کسی بھی وجہ سے کسی دوسری وزارت کے تحت کرنے کا مطالبہ کر دے۔