مانچسٹر(نمائندہ جنگ) سالانہ 1.2ملین پاؤنڈز کمانے والے کاؤنٹی لائنزڈرگ گینگ کو برطانوی پولیس نے انجام تک پہنچا دیا۔منظم جرائم پیشہ گروہ چلانے والے ایک درجن سے زائد قانون شکن مجرمان کے خلاف تحقیقات میں اہم انکشاف سامنے آئے ہیں۔ مجرموں کو برطانوی عدالتوں نے الزامات ثابت ہونے پر 100 برس سے زائد کی سزائیں سنا دیں۔ مذکورہ گینگ کے اراکین ہیروئن اور کوکین جیسے مکروہ دھندے کے ذریعے نوجوان نسل کی رگوں میں زہر اتار رہے تھے۔ پولیس افسران کی طرف سے ایک سیریز کی شکل میں گینگ کے اراکین کے گھروں پر ایک طاقتور آپریشن کیا گیا۔مذکورہ گینگ کے دیگر اراکین کی بھی تلاش جاری ہے۔ دوران تحقیقات چار فون لائنز کو بھی نظر میں رکھا گیا جنہیں منشیات فروخت کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا تھا۔ محتاط اندازے کے مطابق ایک دن میں مجموعی طو رپر ایک ہزار کے قریب کالز موصول ہوتی تھیں۔ فون کے تجزیئے سے پتا چلا کہ بڑی تعداد میں لوگوں کو پیغامات بھیجے جاتے تھے کہ دوائیوں کی فروخت کے لیے اشتہار دے رہے ہیں جس کے بعد بیان کردہ لائن کو بھیج کر آرڈر کیا جا سکتا ہے، اس گروہ کے بارے میں چھ ماہ کی تفتیش کے بعد برمنگھم اور سولی ہل کی جائیدادوں پر مجموعی طور پر 17 وارنٹوں پر عمل درآمد کیا گیا جو خطے میں منشیات کی ایک بڑی مقدار کو کنٹرول کرتا تھا،پولیس نے یہ بھی دریافت کیا کہ آدم اور ہارون اقبال سمیت محمد عثمان برمنگھم کے ہوج ہل میں کام کرنے والے دو نمبرز کا استعمال کرتے ہوئے ریکو لائن کے کنٹرول میں تھے، برطانیہ کی دوسری سب سے بڑی پولیس فورس کی مزید تحقیقات سے پتہ چلا کہ ایڈم سلیٹر اور تیانہ فلپس دونوں ایک دوسرے کے لیے کام کر رہے تھے، انہیں گزشتہ فروری میں سولی ہل میں ان کی کار میں روکا گیا تھا اور سلیٹر کے فون کے تجزیے سے پتہ چلا کہ یہ ڈیگو لائن کے لیے استعمال ہو رہا ہے ایک ماہ کے بعد یاسین صادق نے گرفتاری سے بچنے کے لیے لائن کو دوبارہ فعال کیا اور ایک مختلف نیٹ ورک میں تبدیل کر دیا لیکن ٹیلی کمیونی کیشن انویسٹی گیشنز اور سی سی ٹی وی انکوائری کا مطلب تھا کہ جاسوس اس تبدیلی کو ٹریک کرنے اور یاسین کو ڈیاگو لائن سے جوڑنے کے قابل تھے پولیس کی طرف سے مذکورہ گینگ کے کئی اہم راز بھی سامنے لائے گئے ۔