• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فوجی عدالتیں، حکومتی استدعا مسترد، سویلین ملزمان کے ٹرائل کی اجازت دینے کا مطلب آرمی کورٹس کا اختیار تسلیم کرنا ہوگا، آئینی بنچ

اسلام آباد (رپورٹ:،رانامسعود حسین) عدالت عظمیٰ کے آئینی بینچ نے 9مئی 2023کی دہشت گردی اور جلاؤ گھیراؤ کے مرتکب سویلین ملزما ن کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق سپریم کورٹ فیصلے کیخلاف دائر انٹرا کورٹ اپیلوں کی سماعت روکنے کے حوالے سے دائر درخواست خارج کرتے ہوئے درخواست گزار وسابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کو فضول اور غیر ضروری درخواست دائر کرنے کی پاداش میں 20ہزار روپے جرمانہ عائد کردیا ہے جبکہ وفاقی حکومت کی جانب سے فوجی عدالتوں کو مقدمات کا فیصلہ سنانے کی اجازت دینے سے متعلق استدعا بھی مسترد کر دی ہے ، آئینی بینچ کا کہنا تھا کہ سویلین ملزمان کے ٹرائل کی اجازت دینے کا مطلب آرمی کورٹس کا اختیار تسلیم کرنا ہوگا، جسٹس جمال خان مندو خیل نے واضح کیا کہ جو بھی بینچ بن رہے ہیں نئی ترمیم کے تحت ہی بن رہے ہیں، 26ویں آئینی ترمیم کا مقدمہ بھی ترمیم کے تحت بننے والا بنچ ہی سنے گا، جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اگر اجازت دیدی گئی تو پھر تو فوجی عدالتوں کے سویلین ملزمان کے ٹرائل کے اختیار سماعت کا معاملہ ہی حل ہو جائیگا، انہوں نے استفسار کیا کہ کور کمانڈرز جب اپنے گھر کو بطور دفتر استعمال کریں تو کیا اسے دفتر ڈکلیئر کرتے ہیں؟وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے موقف اختیار کیا کہ یہ کہنا ہی غلط ہے کہ سویلین ملزمان کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہو سکتا ہے۔دوسری جانب سینئر صحافی ارشد شریف کے قتل اور ایف آئی اے کی جانب سے صحافیوں کو حراساں کرنے سے متعلق از خود نوٹس مقدمات کی سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کر دی ہے۔ سینئر جج جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل،جسٹس محمد علی مظہر،جسٹس سید حسن اظہر رضوی،جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان اورجسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل سات رکنی بینچ نے پیر کے روز سویلین ملزمان کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کی۔ درخواست گزار جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے ایک نئی متفرق درخواست کا حوالہ دیتے ہوئے 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں کے فیصلہ کے اجراء تک فوجی عدالتوں سے متعلق مقدمہ کی سماعت روک دینے کی استدعا کی تو ،عدالت نے ان سے استفسار کیا کہ کیا آپکے موکل آئینی بینچ کو تسلیم کرتے ہیں؟تو انہوںنے کہا کہ وہ عدالت کے دائرہ اختیار کو تسلیم نہیں کرتے ہیں ،جس پر جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہاکہ پھر آپ کمرہ عدالت چھوڑ دیں،شاید آپکا کوئی پیارا زیر حراست نہیں ہے ، اسلئے تاخیر چاہتے ہیں، اگر عدالت کا دائرہ اختیار تسلیم نہیں کرتے توپھر یہاں سے چلے جائیں،جس پر فاضل وکیل نے موقف اختیار کیا کہ یہ آئینی بینچ جوڈیشل کمیشن نے نامزد کیا ہے،اگر بعد میں عدالت نے 26ویں آئینی ترمیم کوکالعدم قراردیدیا تو اس بنچ کے تحت ہونے والے فیصلے بھی کالعدم ہوجائینگے،جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ آپکے موکل کی جانب سے ہی تاخیر ی حربے استعمال ہو رہے ہیں، ہر سماعت پر ایسی کوئی نہ کوئی درخواست آ جاتی ہے، اگر 26ویں ترمیم کالعدم بھی ہوجائے توبھی عدالتی فیصلوں کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ دوران سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے سوال اٹھایا کہ جن لوگوں کے رشتہ دار ملٹری کورٹ کی حراست میں ہیں ،کیا وہ بھی یہی چاہتے ہیں؟ جسٹس جمال مندو خیل نے حفیظ اللہ نیازی سے استفسار کیا آپکا بیٹا جیل میں ہے، کیا آپ کیس چلانا چاہتے ہیں؟تو انہوںنے کہاکہ جی میں اس کیس کو چلانا چاہتا ہوں۔ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے جو لوگ جیلوں میں بند ہیں انکابھی سوچیں۔

اہم خبریں سے مزید