لندن (پی اے) ایک اسٹڈی سے ظاہر ہوا ہے کہ سابق فٹبالرز میں ڈیمنشیا کے مرض کا طرز زندگی یعنی سگریٹ نوشی یا موٹاپے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ گلاسگو یونیورسٹی کی فیلڈ اسٹڈی فی الوقت ڈیمنشیا اور کھیلوں میں سر کے استعمال کے درمیان تعلق پر تفتیش کررہی ہے۔ ریسرچرز کی تفتیش کے مطابق سابق کھلاڑیوں میں سگریٹ نوشی، ڈپریشن، الکوہل سے متعلق بیماریوں اور موٹاپے کا عام لوگوں کی طرح ہی یا ان سے کم اثر پڑتا ہے اس اسٹڈی میں 11,984سابق کھلاڑیوں کے ہیلتھ کارڈ کا جائزہ لیا گیااور ان کا 35,952عام آدمیوں کے ہیلتھ رکارڈ سے موازنہ کیا گیا، اس سے ظاہر ہوا کہ سابق کھلاڑیوں میں ڈیمنشیا کے امکانات عام آدمی سے کم رہے۔ فیلڈ اسٹڈی کی قیادت کرنے والے نیورولوجسٹ پروفیسر ویلی اسٹیوارٹ کا کہنا ہے کہ اس اسٹڈی سے کھیلوں میں سر کے استعمال کو کم کرنے یا سر کو استعمال نہ کرنے کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہماری تازہ ترین اسٹڈی کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ سابق فٹبالرز میں دماغی عوارض کا طرز زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس طرح، جہاں عمومی صحت اور طرز زندگی کے خطرے کے عوامل کو حل کرنے کے لئے اقدامات کی سفارش کی جانی چاہئے، وہیں رابطہ کھیلوں کے کھلاڑیوں میں دماغی بیماری کے خطرے کو کم کرنے کی ترجیح یہ ہونی چاہئے کہ جہاں تک ممکن ہو، سر پر بار بار اثرات اور دماغی چوٹ کے خطرات کو اگر مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا تو اس خطرے کوکم کیا جائے۔ یہ نتائج پہلے کے فیلڈ اسٹڈی تحقیق پر مبنی ہیں، جس سے سابقہ پروفیشنل فٹ بال کھلاڑیوں میں دماغی بیماری کی زیادہ شرح کا اظہار ہوتا ہے۔ 2019 میں کی جانے والی ایک تحقیق میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ سابق کھلاڑیوں کو دماغی بیماری سے عام عوام کی نسبت تین گنا سے زیادہ موت کا خطرہ ہوتا ہے۔ 2021 میں محققین نے یہ بھی معلوم کیا کہ کھلاڑی کے کیریئر کی مدت اور ان کے ڈیمینشیا کے مرض کے خطرے کے درمیان براہ راست تعلق ہے اور جن کھلاڑیوں کا کیریئر سب سے طویل تھا، ان میں دماغی بیماری کا خطرہ 5گنا بڑھ گیا تھا۔ اس مطالعہ کا عنوان سابق پروفیشنل فٹ بال کھلاڑیوں میں ڈیمینشیا کے خطرے پر صحت اور طرز زندگی کے عوامل کا اثر تھا اور یہ جاما نیٹ ورک اوپن میں شائع ہوا تھا۔ اس تحقیق کی فنڈنگ فٹ بال ایسوسی ایشن، پروفیشنل فٹ بالرز ایسوسی ایشن، نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ اور میڈیکل ریسرچ کونسل نے کی تھی۔