گریٹر مانچسٹر کی ڈائری… ابرار حسین آزاد جموں و کشمیر میں ایک متنازع اسمبلی اینڈ پبلک آرڈر آرڈیننس 2024کے نفاذ کے بعد ہڑتالوں اور شٹر ڈاؤن کی لپیٹ میں آگیا تھا تاہم مقام اطمینان ہے کہ آزاد کشمیر میں چونکہ قائد جموں و کشمیر بابائے جمہوریت چوہدری نور حسین مرحوم کے فرزند، عالمی شہرت یافتہ کشمیری عوام کے ترجمان بیرسٹر سلطان محمود چوہدری صدارت کے عہدہ جلیلہ پر فائزجہ ہیں اور عوامی حقوق کے نگہبان چوہدری صحبت علی مرحوم کے عظیم بیٹے چوہدری انوار الحق وزارت عظمی کی کرسی پر موجودہیں اس لیے دونوں نے کمال سیاسی بصیرت اور تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایکشن کمیٹی کے مطالبات منظور کر لیے اور آزاد کشمیر کے حساس خطے کو کسی بڑے امتحان سے بچا لیا ۔ اوورسیز کشمیری لمحہ لمحہ کی خبریں لیے ہوئے تھے اس بار جو احتجاج کی لہر اٹھی تھی اس کی بازگشت عالمی سطح پر بھی سنی گئی آزاد کشمیر پاکستان کے زیر انتظام چھوٹا سا پرامن خطہ ہے۔ اوورسیز کشمیری بخوبی سمجھتے ہیں کہ بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اور چوہدری انوار الحق کبھی بھی آزاد کشمیر کے عوام کے مفادات کا سودا نہیں کرسکتے۔ ہم یہاں اپنے قارئین کی معلومات کے لیے احتجاج کی نوعیت پر کچھ روشنی ڈالنا بھی ضروری سمجھتے ہیں تاجر تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ حکومت ایک بار پھر آٹے اور بجلی کی قیمتیں بڑھانا چاہتی ہے جس کی پیش بندی کے لیے یہ آرڈیننس لایا گیا ہے۔ متنازع قانون نافذ ہوتے ہی جہاں ایک جانب کشمیر کی قوم پرست جماعتوں کے ʼاتحاد آل پارٹیز رابطہ کمیٹیʼ نے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع کیا تو دوسری جانب حکومت نے ان مظاہروں میں شامل افراد کے خلاف پے در پے مقدمات درج کرنا شروع کر دیے تھے۔ جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن آل پارٹیز رابطہ کمیٹی کے ترجمان حارث قدیر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں دعویٰ کیا کہ اس قانون کے تحت اب تک 13مقدمات درج ہو چکے ہیں جن میں کم از کم 300سیاسی کارکنوں کو نامزد کیا گیا ہے۔ ان میں زیادہ تعداد قوم پرست جماعت جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے مختلف دھڑوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی ہے ا ن مقدمات میں دو صحافیوں کو بھی نامزد کیا گیا تھا۔ آل پارٹیز رابطہ کمیٹی کے مطابق کوٹلی، راولاکوٹ اور مظفرآباد سمیت کئی اضلاع میں کم از کم 17افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ آل پارٹیز رابطہ کمیٹی کی قیادت کی گرفتاری کے بعد جموں وکشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی بھی اس احتجاج میں شامل ہو گئی۔ اس متنازع آرڈیننس کو ʼکالا قانونʼ قرار دیتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا گیاتھا کہ اسے واپس لے کر اس کے تحت درج مقدمات ختم اور گرفتار کارکنوں کو رہا کیا جائے۔شوکت نواز میر کا کہنا تھا کہ یہ قانون آزادیٔ اظہار اور احتجاج کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور اس کا مقصد کشمیر میں لگ بھگ دو سال سے جاری عوامی تحریک کو ختم کرنا ہے۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ گزشتہ سال احتجاجی تحریک کے بعد حکومت آٹے اور بجلی کی قیمتیں کم کرنے پر رضامند ہو گئی تھی لیکن اب پھر یہ خدشہ ہے کہ حکومت آئندہ مالی سال کے دوران یہ سبسڈی ختم کرنا چاہتی ہے۔ سول سوسائٹی تنظیموں کا اتحاد احتجاج کی قیادت کر رہا تھا ان کے مطالبات واضح تھے کہ آرڈیننس کو منسوخ کریں، جس پر ان کا کہنا ہے کہ پرامن اسمبلی کے آئینی حق کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور امن عامہ کو برقرار رکھنے اور شہری آزادیوں کے تحفظ کے درمیان نازک توازن کو خراب کرتا ہے۔ اگرچہ آزاد جموں و کشمیر کی سپریم کورٹ نے آرڈیننس کو عارضی طور پر معطل کر دیا تھا لیکن ہڑتالیں اور احتجاج جاری رہیں اور بالآخر صدر آزاد کشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے لوگوں کے جذبات کی بھرپور ترجمانی کرتے ہوئے اس آرڈیننس کے حوالے اہم قدم اٹھایا اور وزیراعظم چوہدری انوار الحق نے عملی جامہ پہنا دیا اور مطالبات منظور کر لیے گئے اور حالات معمول پر آگئے ۔یہاں چند دیگر امور بھی قابل ذکر ہیں جن کو سمجھنے کے لیے پچھلی بار کے ایکشن کمیٹی کے احتجاج کے محرکات کو دیکھنا ضروری ہے جب بجلی کے مہنگے بلوں اور ٹیکسوں کے خلاف مظاہرے قابو سے باہر ہو گئے تھے پھر 23 ارب روپے کی گرانٹ کے ساتھ تاخیر سے شکایات کا ازالہ کرنے سے پہلے تاخیر سے جواب دینے سے جانیں ضائع ہوگئی تھیں اور کئی لوگ زخمی ہوئے تھے اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کے جناب اصف علی زرداری نے نمایاں رول ادا کیا تھا اور وفاقی حکومت کو آزاد کشمیر کے مظاہرین کے مطالبات منظور کرانے میں دور اندیشی کا رول ادا کیا جبکہ حالات واقعات پر نگاہ رکھنے والوں کے مطابق آزاد کشمیر کے احتجاج کرنے والے عوام کو عمران خان کی تحریک انصاف کا بھی بھرپور تعاون حاصل تھا اور قوم پرست جماعتوں کا بھی لیکن پاکستان مسلم لیگ ن آزاد کشمیر نے اس احتجاج کو بھارت کا سپناسرڈ قرار دلوانے کا گھناونا پروپیگنڈہ کیا تھا اس بار بھی پاکستان پیپلز پارٹی آزاد کشمیر کے صدر چوہدری محمد ہاسین اور فریال تالپور نے صدارتی آرڈیننس کے خلاف آواز بلند کی ہے جس پر یہ قائدین بھی خراج کے مستحق ہیں۔