• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سویلینز کا ملٹری ٹرائل کیوں؟ جو شخص فوج میں نہ ہو وہ اس کے ڈسپلن تلے کیسے آسکتا ہے، آئینی بنچ

اسلام آباد(رپورٹ / رانامسعود حسین / جنگ نیوز ) سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے کہا ہے کہ سویلنز کا ملٹری ٹرائل کیوں؟جوشخص فوج میں نہ ہو وہ اس کے ڈسپلن تلے کیسے آسکتاہے،ایوان صدر پرحملے کا ٹرائل انسداددہشتگردی عدالت میں،فوجی تنصیبات کا ملٹری کورٹ میں؟ 

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ فیصلہ قانون سازوں نے کیا،جسٹس مسرت ہلالی حکومتی وکیل کو 9 اور 10 مئی کی ایف آئی آرز کی تفصیل دینے کی ہدایت کی،جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ آئین کے آرٹیکل 8 میں آرمی قوانین کا ذکر ان کے ڈسپلن سےمتعلق ہے، حضرت عمرؓ نے سخت ڈسپلن کی وجہ سےہی فوج کو باقی عوام سے الگ رکھا، فوج کو ہی بارڈر سنبھال کر ملک کا دفاع کرنا ہوتا ہے، اسکا ڈسپلن قائم ہے اللّٰہ قائم ہی رکھے۔

سینئر جج جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل،جسٹس محمد علی مظہر ،جسٹس سید حسن اظہر رضوی،جسٹس مسرت ہلالی،جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل 7 رکنی بینچ نے جمعرات کو انٹرا کورٹ اپیلوں کی سماعت کی تو جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ملٹری کورٹ کے زیر حراست افراد کیخلاف ایف آئی آر کی نقول نہیں دی گئی ہیں ،جس پراپیل گزار وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے موقف اپنایاکہ ملٹری کورٹس کیس میں عدالتی فیصلہ دو حصوں پر مشتمل ہے، ایک حصے میں آرمی ایکٹ کی دفعات کو کالعدم قرار دیا گیا جبکہ دوسرے حصہ میں ملزمان کو ملٹری کورٹ کی تحویل میں رکھنے کا حکم دیا گیا۔

جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہاکہ ملٹری کورٹس کا پورا کیس آئین کے آرٹیکل 8کے گرد گھومتا ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کیا پانچ رکنی لارجر بینچ نے آرمی ایکٹ کی دفعات کو آئین کے آرٹیکل آٹھ سے متصادم قرار دیاتھا؟ فیصلے میں آرمی ایکٹ کی دفعات کو آرٹیکل آٹھ سے متصادم ہونے کا کیا جوازپیش کیا گیا ؟

 جسٹس جمال خان مندو خیل نے استفسار کیاکہ جو شخص آرمڈفورسز میں نہیں وہ اس کے ڈسپلن کے نیچے کیسے آ سکتا ہے؟ تو فاضل وکیل نے جواب دیا اگر قانون اجازت دیتا ہے اس پرتو ڈسپلن کا اطلاق ہوگا، جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ ایک شخص آرمی میں ہے اس پر توملٹری ڈسپلن کا اطلاق ہوگا، ایک شخص محکمہ زراعت میں ہے اس پر بھی محکمہ زراعت کے ڈسپلن کا اطلاق ہوگا، لیکن اگر کوئی شخص کسی محکمہ میں سرے سے ہے ہی نہیں؟ تو اس پر آرمی فورسز کے ڈسپلن کا اطلاق کیسے ہوگا؟ کیا غیر متعلقہ شخص کو ڈسپلن کے نیچے لانا آئین کے آرٹیکل8 کی خلاف ورزی نہیں ہوگی؟ جس پر فاضل وکیل نے موقف اختیار کیا کہ مخصوص حالات میں سویلین شہریوں پر بھی آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے۔

 سپریم کورٹ کے اس نقطہ پر عدالتی فیصلہ موجود ہے، جس پرجسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ ایف بی علی اور شیخ ریاض علی کیس میں یہی قرار دیا گیاہے ، چار ججوں پر مشتمل لارجر بنچ نے فیصلے میں آرمی ایکٹ کی دفعات کو کالعدم کیا ۔

فاضل وکیل نے موقف اپنایاکہ عدالت کے پاس آرمی ایکٹ کی دفعات کو کالعدم کرنے کا اختیار نہیں ، جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیئے اس طرح تو اگر کوئی اکسانے کا سوچے تو اس پر بھی آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوگا، کیا آرمی ایکٹ نے آئین کے آرٹیکل آٹھ کی دفعہ 1غیر موثر نہیں کر دی ؟

 کیا سویلین ملزمان پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہو سکتا ہے؟ فاضل وکیل نے موقف اپنایاکہ ملٹری ٹرائل میں بھی فیئر ٹرائل کے آرٹیکل 10 اے کا اطلاق ہوتا ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ ملٹری کورٹ سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلوںکو یہاں سنا جا رہا ہے، عدالتی فیصلے میں سب سے پہلے نقائص کی نشاندہی کریں، جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کہ آئینی بینچ انٹرا کورٹ اپیلوں میں بھی کسی آئینی نقطے کا جائزہ لے سکتا ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ برادر جج کی آبزرویشن سے میرا اختلاف نہیں ، فیصلے میں نقائص کی نشاندہی بھی ضروری ہےْ

 جسٹس جمال مندو خیل نے کہاکہ پاکستان میں سب سے بڑا عہدہ صدر پاکستان کا ہے، اگر صدر ہاؤس پر حملہ ہوتا توملزم کاٹرائل انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت میں ہوگا، اگر آرمی املاک پر حملہ ہو تو ٹرائل ملٹری کورٹ میں؟

 فاضل وکیل نے موقف اختیار کیاکہ یہ فیصلہ قانون سازوں نے قانون سازی سے کیا ، جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا ملٹری کورٹ میں ٹرائل کے دوران ملزم کو وکیل کرنے کی اجازت ہوتی ہے اور ملزم کو تمام مواد فراہم کیا جاتا ہے؟ جس پر فاضل جج نے جواب دیا کہ ملٹری کورٹ میں ملزم کو وکیل اور تمام متعلقہ مواد فراہم کیا جاتا ہے، جسٹس جمال خان مندو خیل نے استفسار کیا کہ اگر ایک فوجی اپنے افسر کا قتل کر دے تو کیس کہاں چلے گا؟جس فاضل جج نے جواب دیاکہ قتل کا کیس عام عدالت میں چلے گا، جسٹس جمال خان مندو خیل نے ریمارکس دیئے جو شخص آرمی ایکٹ کا سبجیکٹ ہی نہیں اسکو بنیادی حقوق کیسے محروم کیا جا سکتا ہے؟ 

جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہاکہ میں نے تاریخ پڑھی ہے، یہ تصور حضرت عمرؓ کے دور میں آیا تھا کہ آرمڈ فورسز، سویلین فورسز سے علیحدہ ہونگی، آرمڈ فورسز کیلئے قوانین بھی علیحدہ ہونگے، جو قوانین آرمڈ فورسز کی حد تک نہیں ہیں وہ ڈسچارج آف ڈیوٹیز نہیں ہونگے،دلائل جاری تھے کہ عدالت نے وقت ختم ہوجانے کی بنیاد پر مزید سماعت آج تک ملتوی کردی۔

اہم خبریں سے مزید