کراچی (نیوز ڈیسک) 27؍ نومبر کو عسکریت پسند گروپ حیات تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) کی قیادت میں مسلح اپوزیشن گروپس نے شام کے شمال مغربی شہروں حلب اور ادلب پر قبضہ کیا اور محض دو ہفتوں سے بھی کم وقت میں جنگجو دارالحکومت دمشق میں داخل ہوگئے، جس کے بعد صدر بشار الاسد اور ان کی فیملی ابتدائی اطلاعات کے مطابق ملک چھوڑ کر نامعلوم مقام پر منتقل ہوگئی، تاہم بعد میں فیملی کے روس پہنچنے کی اطلاعات سامنے آئیں۔ شام کی فوج کا اس طرح بکھرنا ایک قابل دید امر تھا۔
اس صورتحال نے افغانستان کی یاد تازہ کر دی کہ کس طرح امریکی فوج کا انخلاء ہوا اور کیسے طالبان نے تیزی سے پیشقدمی کرتے ہوئے دارالحکومت کابل کا کنٹرول سنبھال لیا۔
2014ء میں بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا جب داعش نے نہایت ہی برق رفتاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل پر قبضہ کر لیا تھا۔
غور کریں تو ایچ ٹی ایس ہو یا پھر طالبان اور داعش: ان کی کامیابی کی وجہ گروپ کے ارکان کے درمیان پائی جانے والی ہم آہنگی تھی یا جسے عرب مورخ ابن خلدون نے ’’عصبیہ‘‘ کا نام دیا ہے۔
ان گروپس کو یہ کامیابیاں ان کے مخالفین کی ناکامیوں کی وجہ سے ملی ہیں۔ جس طرح افغان فوج میں کرپشن پائی جاتی تھی بالکل ویسے ہی شامی فوجی میں بھی کرپشن موجود تھی، ان کی سرپرستی کے نیٹ ورکس بھی کئی تھے، یہی وجہ ہے کہ شامی فوج نہ صرف غیر مستحکم ہو چکی تھی بلکہ اسے کسی غیر ملکی قوت سے مدد بھی نہ مل پائی۔
اس کے علاوہ دیگر عوامل کو دیکھیں تو بشار الاسد کی حکومت کمزور تھی، اس کی قانونی حیثیت بھی کمزور تھی، جبکہ غیر مقبول حکومت کی وجہ سے شامی فوج منظم نہ ہو پائی یہی وجہ ہے کہ مسلح جنگجوؤں کی پیشقدمی روکنے کیلئے ناکام رہی۔
برسوں سے شامی اپوزیشن ٹوٹ پھوٹ اور اندرونی اختلافات کا شکار رہی اور یہی وجہ تھی کہ شامی حکومت کے مقابلے میں کامیاب نہیں ہو پائی۔
2020ء کے بعد، ان کے درمیان تنازع منجمد رہا، جس سے اپوزیشن گروپس بالخصوص ایچ ٹی ایس کو منظم ہونے کا موقع ملا۔ کئی برسوں کی ناکامیوں کے باوجود اس گروپ نے شامی حکومت کیخلاف لڑنے کی امید اور حوصلہ نہیں کھویا۔
ایچ ٹی ایس کے ارکان میں یکجہتی کا احساس پیدا ہوا، جسے ابن خلدون عصبیہ کہتے ہیں۔
اندرونی یکجہتی کے عنصر یعنی عصبیہ کی شناخت ابن خلدون نے 14ویں صدی میں ایک کلیدی عنصر کے طور پر کی تھی جس نے ایک قبائلی قوت کو اس قدر مضبوط بنایا کہ وہ پوری کی پوری سلطنتوں پر قبضہ کر سکیں۔
ابن خلدون نے یہ نتیجہ منگول رہنما امیر تیمور (تیمور لنگ) کی جانب سے کی جانے والی پیشقدمیوں کا مشاہدہ کرتے ہوئے اخذ کیا تھا۔
امیر تیمور نے نہ صرف وسطی ایشیا بلکہ ہندوستان، فارس، عراق اور اناطولیہ کے کچھ حصوں پر بھی قبضہ کیا۔ 1400ء میں امیر تیمور کی فوج نے حلب پر قبضہ کیا، اس کے بعد حما اور حمص پر قبضے کیلئے برق رفتار اورجارحانہ کارروائیاں کیں۔
بالآخر دسمبر 1400ء میں دمشق کا کنٹرول امیر تیمور کے ہاتھوں میں چلا گیا اور غیر مقبول مملوک حکمران حیرانی اور پریشانی کے عالم میں ملک چھوڑ کر فرار ہوگئے۔
شامی اپوزیشن کے معاملے میں دیکھیں تو ان کے حوصلے نہ صرف آپسی یکجہتی کی وجہ سے بلند ہوئے بلکہ ان کے ذہن میں یہ خیال بھی گہرائی تک موجود تھا کہ وہ قومی آزادی کیلئے لڑ رہے ہیں۔