اسلام آباد (اعزاز سید) پاکستان اور چین کے درمیان مثالی تعلق شاید ایک تبدیلی کی طرف بڑھ رہا ہے اور اس کی وجہ تین عوامل ہیں۔ یہ بات چین کی حکومت کی دعوت پر بیجنگ اور شنگھائی کا دورہ کرنے والے پاکستانی وفد کے حالیہ دورے میں سامنے آئی۔ وفد میں جیو اور دی نیوز کا یہ نمائندہ بھی شامل تھا۔ تین عوامل میں سے پہلایہ ہے کہ سی پیک کے تحت چلنے والے منصوبوں کی سست رفتار پیشرفت سے چین کو تشویش لاحق ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ گوادر پورٹ مکمل طور پر فعال ہونے کی پوزیشن سے بہت دو رہے، جس سے چین کو تھوڑی مایوسی ہوئی ہے۔ تیسرا اور شاید سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ پاکستان مین چائنیز شہریوں پر مسلسل ہونے والے حملوں نے چائنیز حکومت کو پریشان کر دیا ہے۔ چائنیز حکام کا ان واقعات کی تحقیقات کے نتائج کی تصدیق، اور اس کے ساتھ ہی انکوائری کیلئے مشترکہ اقدامات کی خواہش دونوں ملکوں کے درمیان مضبوط شراکت داری میں پائی جانے والی کشیدگی کی نشاندہی کرتی ہے۔ مختلف تھنک ٹینکس اور پالیسی ماہرین کے ساتھ بات چیت میں پاکستانی وفد کو وہ معلومات حاصل ہوئیں جو ان ابھرتے خدشات کو ظاہر کرتی ہیں۔ چونکہ بات چیت بند دروازے کے پیچھے ہوئی تھی لہٰذا شرکاء کے نام طے شدہ اصولوں کی بنیاد پر مخفی رکھے جا رہے ہیں۔ بات چیت واضح تھی، جس میں چائنیز ماہرین کی پاکستان میں اپنے شہریوں کی سیکورٹی کے حوالے سے پائی جانے والی تشویش کو اجاگر کیا گیا۔ جب ان سے پاکستان میں اپنے شہریوں کی ہلاکتوں پر چین کی بڑھتی تشویش کے متعلق پوچھا گیا تو ماہرین نے واضح کیا کہ چین میں ایسے واقعات شاذ و نادر ہی ہوتے ہیں کیونکہ حکومت اپنے لوگوں کے تحفظ کو ترجیح دیتی ہے۔ چاہے ایشیا ہو یا امریکا، آسٹریلیا یا افریقہ، کسی دوسرے خطے کے برعکس پاکستان میں چائنیز شہریوں کے نشانہ بننے کی خبریں مختلف ہیں جس سے سیاسی حلقوں میں مزید بے چینی پھیلتی ہے۔ چائنیز حکام نے پاکستان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا لیکن ایک شرط پر: پاکستان چائنیز خاندانوں کے سماجی تانے بانے کو سمجھے؛ اسے آبادی پر قابو پانے کے سخت اقدامات بالخصوص ایک بچہ پالیسی کے ذریعے تشکیل دیا گیا ہے۔ جب یہ ایک بچہ دہشت گردی کا شکار ہوتا ہے تو پورے خاندان اور وسیع پیمانے پر پوری قوم کو گہرا رنج ہوتا ہے۔ ایک چائنیز اسکالر نے اس بات پر اصرار کیا کہ اس اجتماعی دکھ کی گونج پورے ملک میں سنائی دیتی ہے۔ یہ صورتحال پاکستان میں چائنیز شہریوں کے ساتھ ہونے والے ہر واقعے سے جذبات انداز سے جڑے مفاد کو واضح انداز سے نمایاں کرتی ہے۔ بات چیت کا ایک حصہ دہشت گردی کے حساس موضوع اور دو طرفہ تعلقات پر اس کے اثرات کے گرد گردش کرتا رہا۔ جب پاکستانی وفد نے یہ کہا کہ انہیں یقین ہے کہ ان حملوں کی منصوبہ بندی بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی ’’را‘‘ کرتی ہے، تو چائنیز حکام نے تصدیق کی کہ انہیں بھی یہی بتایا گیا ہے لیکن وہ اس کے ٹھوس شواہد دیکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے شفافیت کی ضرورت پر زور دیا اور اس بات کی ضرورت پر بھی زور دیا کہ چائنیز شہریوں کو پاکستان میں نشانہ بنائے جانے کی مفصل اور مشترکہ تحقیقات ہونا چاہئیں۔ جب وسیع تر جیو پولیٹیکل ماحول، بالخصوص ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت آنے کے نتائج اور اس کے ایشیائی جیوپولیٹیکل صورتحال پر اثرات کا جائزہ لیا گیا تو علاقائی استحکام کے ممکنہ اثرات کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا گیا۔ کئی چائنیز ماہرین نے موقف اختیار کیا کہ ٹرمپ انتظامیہ کی اندرونی مسائل پر توجہ علاقائی کھلاڑیوں، بالخصوص بھارت کو کھلی چھوٹ دے سکتی ہے۔ یہ خدشہ کہ بھارت کو جنوبی ایشیا میں اپنے مقاصد کے حصول میں بہت کم مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا، بات چیت کے دوران واضح طور پر محسوس کیا گیا۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ گوادر کی آپریشنل صلاحیت میں اضافہ اور جاری انفراسٹرکچر پراجیکٹس ان اعداد و شمار میں اضافہ کر سکتے ہیں، تاہم اس بات پر زور دیا گیا کہ سیکورٹی سب سے زیادہ اہم ہے۔ جس سے چین تیزی سے ترقی کر رہا ہے اور مغربی ممالک اس دوڑ میں اس سے پیچھے ہیں، چین کی جانب سے پاکستان کو علاقائی ترقی کے دروازے (گیٹ وے) کے طور پر استعمال کرنے کی خواہش بہت مضبوط ہے۔ تاہم، پروجیکٹس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں پاکستان کی سستی چین میں عدم اطمینان کو ہوا دے رہی ہے جس سے دونوں ملکوں کے درمیان شراکت داری کی مضبوطی اور گہرائی کے حوالے سے تحفظات بڑھ رہے ہیں۔ ایسی مایوسیوں کے باوجود، چین پاکستان کو غیر متزلزل حمایت کی پیشکش کیلئے پرعزم ہے اور پاکستان کو اس بات پر قائل کرنے کی خواہش رکھتا ہے کہ چین بحرانوں کے درمیان اہم کردار ادا کرے گا، اور دونوں کے درمیان تعلقات عدم اعتماد کے بادل سروں پر منڈلانے کے باوجود لچکدار رہیں گے۔