کراچی (نیوز ڈیسک) جس وقت سابق شامی صدر بشار الاسد روس میں اپنے نئے گھر میں آباد ہو چکے ہیں، اس وقت ڈھلتے ہوئے دمشق میں داعش جیسے دھڑے علوی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی اشرافیہ کا محاصرہ کرکے اپنی نئی حکومت کو مضبوط کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، اور ساتھ ہی دنیا اب مشرق وسطیٰ میں آنے والی نئی تبدیلی کی رفتار کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔
اسرائیلی اخبار ٹائمز آف اسرائیل میں شائع ہونے والے ایک آرٹیکل کے مطابق، اسرائیل نے اس تبدیلی کو جلد قبول کرتے ہوئے ترک حمایت یافتہ شامی فورسز سے کسی بھی ممکنہ خطرے کے پیش نظر غیر فوجی علاقہ جات میں اپنی عسکری موجودگی کو مضبوط کرکے پیشگی اقدامات کر لیے ہیں۔
اس تازہ ترین صورتحال کے بیچ، لبنان کھنڈر بن چکا ہے، عراق میں ایرانی حمایت یافتہ فورسز کا غلبہ بڑھ رہا ہے جبکہ یمن میں بحرانی صورتحال ہے۔ موجودہ حالات کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ پہلی جنگ عظیم کے موقع پر 1916ء میں فرانس اور برطانیہ کے درمیان ہونے والا خفیہ ’’سائیکس پیکو‘‘ معاہدہ ہوا میں تحلیل ہو رہا ہے۔
ایسی صورتحال میں اسرائیل میں پالیسی سازوں کیلئے اس نئی حکومت کو تسلیم کرنا، اس کا جائزہ لینا اور مناسب حکمت عملی بنانا مناسب ہے۔
ممکن ہے اگلی باری اب اردن کی ہو۔ ایسی صورتحال میں اسرائیل دریائے اُردن کی مشرقی سمت میں مسئلے کے دو ریاستی حل کے تصور کو حقیقی بنانے کے موقع پر غور اور اس کا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
اسرائیل کے نئے تعینات ہونے والے وزیر دفاع اسرائیل کاتز نے نئے چیلنجز سے نمٹنے میں وقت ضایع نہیں کیا۔
انہوں نے ایرانی اسلحے اور عسکریت پسندوں کی آمد کو روکنے کیلئے اُردن کی سرحد کے ساتھ مضبوط سرحدی دیوار کی تعمیر کا حکم دیا۔
مشرقی سرحد پر بڑھتے خطرات کو سمجھتے ہوئے کاتز نے ایک نئی فوجی بریگیڈ تشکیل دی تاکہ اس مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کیا جا سکے۔ اُردن کی آبادی فلسطینیوں کی ایک بڑی تعداد پر مشتمل ہے۔