• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہائیڈ پارک … وجاہت علی خان
کیا پاکستان میں کرپشن، آئین توڑنے اور مقتدرہ پر تنقید کے الزامات صرف عمران خان پر ہی لگے ہیں ، کیا مختلف اداروں پر چڑھ دوڑنے کی روایت فقط عمران خان نے قائم کی ہے، کیا اقربا پروری اور دوستوں کو نوازنے کی روش عمران خان کے سوا اور کسی کی نہیں رہی کیا گالم گلوچ، لغویات بولنے اور ٹھٹھے اُڑانے کی ریت صرف اسی ایک سیاستدان کے کھاتے میں آتی ہے، کیا کسی جرنیل (فیض حمید) کے ساتھ مل کر شازشیں صرف عمران خان نے کی ہیں اور کیا ہم نے پاکستان کے 29میں سے 18وزرائے اعظم کو کرپشن یا براہ راست فوجی بغاوت اور بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے جرم میں نہیں نکالا گیا جن میں لیاقت علی خان، خواجہ ناظم الدین، محمد علی بوگرہ، چوہدری محمد علی، حسین شہید سہروردی، آئی آئی چندریگر، ملک فیروز خان نون، نورالامین، ذوالفقار علی بھٹو، محمد خان جونیجو، میاں نواز شریف (تین بار) محترمہ بینظیر بھٹو، میر ظفر اللہ خان جمالی، یوسف رضا گیلانی اور اب عمران خان شامل ہیں آج عمران خان کے خلاف پنجاب میں 99اور پختونخوا میں 2جبکہ اسلام آباد میں 76مقدمات درج ہیں وفاقی تحقیقاتی ادارے میں عمران خان پر7مقدمات اور انکوائریز زیرالتوا ہیں نیب میں بھی ان کے3 مقدمات موجود ہیں جبکہ توشہ خانہ فوجداری کیس میں سزا کے خلاف عمران خان کی اپیل زیر التوا ہے ۔ایک اور ریفرنس میں کہا گیا تھا کہ عمران خان نے اپنے اثاثوں میں توشہ خانہ سے لیے گئے تحائف اور ان تحائف کی فروخت سے حاصل کی گئی رقم کی تفصیل نہیں بتائی۔ اس ریفرنس کے مطابق عمران خان نے دوست ممالک سے توشہ خانہ میں حاصل ہونے والے بیش قیمت تحائف کو الیکشن کمیشن میں جمع کروائے گئے اپنے سالانہ گوشواروں میں دو برس تک ظاہر نہیں کیا۔ یہ تحائف صرف سال 2021-2020کے گوشواروں میں اس وقت ظاہر کیے گئے جب توشہ خانہ سکینڈل اخبارات کی زینت بن گیا۔ کیس یہ بھی ہے کہ بحریہ ٹاؤن کے ملک ریاض کے برطانیہ میں قبضے میں لیے جانے والے 190ملین پاؤنڈ پاکستان لا کر انہیں سپریم کورٹ کورٹ اکاؤنٹ میں کیوں جمع کروایا گیا، الزام ہے کہ شریک ملزموں کو غیر قانونی فائدے کے بدلے میں آپ نے القادر یونیورسٹی پراجیکٹ کیلئے 485کنال زمین حاصل کی۔ ان غیر قانونی احسانات کے بدلے میں فرحت شہزادی (گوگی) نے بشریٰ بی بی کی فرنٹ پرسن کے طور پر ملک ریاض سے موضع موہڑہ نور، اسلام آباد میں 240 کنال اراضی مالی فائدے کے طور پر حاصل کی۔ اس بڑی رقم کی برطانیہ سے پاکستان غیر قانونی منتقلی کے حوالے سے سٹیٹ بینک آف پاکستان سے مشاورت نہیں کی گئی۔ بحریہ ٹاؤن کی جانب سے القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کو 285 ملین روپے کیش جبکہ بلڈنگ ، فرنیچر اور زمین کے لیے 450 ملین کی امداد دی اور یہ سیکڑوں ایکڑ زمین جو عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے نام ہے۔ اس کیس میں عمران خان پر الزام ہے کہ انہوں نے مبینہ طور پر پراپرٹی ٹائیکون سےوہ رقم جو قومی خزانے میں آنا تھی اس پراپرٹی ٹائیکون کے سپریم کورٹ کے لائبیلٹی اکاؤنٹ میں جمع کروانے کی اجازت دی تھی۔ اس کیس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کے علاوہ شہزاد اکبر بھی نامزد ہیں۔ ٹیرین وائٹ کیس عمران خان کی مبینہ بیٹی کے حوالے سے ہے اور ان پر الزام ہے کہ وہ اس بیٹی کے والد ہیں لیکن انہوں نے اپنی دستاویزات میں کہیں بھی ٹیریان وائٹ کا ذکر نہیں کیا۔ اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد آنے کے بعد عمران خان نے اسلام آباد میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ایک مبینہ خط لہرایا جس میں ان کے مطابق وہ سائفر تھا جو پاکستانی سفیر نے امریکہ سے بھیجا تھا۔ اس سائفر میں مبینہ طور پر امریکہ کی طرف سے عمران خان حکومت ہٹانے کا کہا گیا تھا۔ عمران خان پر الزام ہے کہ انہوں نے اس سائفر کو سیاسی طور پر استعمال کیا اور اپنی حکومت کے خاتمے کے حوالے سے امریکہ اور اس وقت کی اپوزیشن جماعتوں پر الزام عائد کیا کہ ان کی حکومت ختم کرنے کی سازش کی گئی۔ عمران خان کے خلاف اس وقت نو مئی کے حوالے سے مختلف کیسز کی سماعت جاری ہے جس میں ان پر الزام ہے کہ انہوں نے نو مئی کے واقعات کی منصوبہ بندی کی اور ریاستی اداروں پر حملوں کو منظم کیا۔ عدت کے مقدمہ میں تو عمران خان رہا ہو چکے ہیں ، اب بڑا سوال یہ ہے کہ سائفر اور 9مئی کے علاوہ باقی کے تمام کیسز ایسے ہیں جن سے ملتے مقدمات ماضی میں دیگر سیاسی جماعتوں کے سربراہوں پر بھی بنتے رہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وُہ ان الزامات سے بری بھی ہوتے رہے حَتّیٰ کہ اربوں روپے کی کرپشن کے مقدمات میں بھی، رہی بات یہ کہ عمران خان کی طرف سے ہر احتجاج کے شرکا مار دھاڑ ، توڑ پھوڑ ، مرو مارو کے جذبے سے سرشار اور انواح و اقسام کے اسلحے سے لیس ہوتے ہیں۔ لیکن یہاں بھی ریاست کی ذمہ داری ہے کہ قبل از وقت وُہ ایسے اجتماعات کی بیخ کُنی کرے، احتجاج کی اجازت نہ دے اور عوام کی جان و مال کا تخفظ کرے، جس طرح دُنیا کے تمام مہذب ملکوں میں ہوتا ہے کہ شتر بے مہار آزادیاں کسی بھی معاملے میں کسی کو بھی حاصل نہیں ہیں۔ برطانیہ میں بھی اظہار رائے اور جلسے جلوسوں کی اجازت بہت سے ’’کیا کیوں کیسے‘‘ سے مشروط ہے مثلاً اگر کوئی تنظیم احتجاج کرنا چاہتی ہے تو اُسے کچھ روز پہلے متعلقہ پولیس کو درخواست دینا پڑتی ہے اور احتجاج کا ایجنڈا، لوگوں کی اَنْدازاً تعداد، روٹ،منتظمین کے نام اور کوائف، احتجاج شروع ہونے اور ختم ہونے کا وقت اور روٹ بتانا پڑتا ہے اگر پولیس اجازت دے بھی دے اور موقع پر محسوس کرے تو دئیے گئے روٹ کو تبدیل، شرکا کی تعداد کو محدود یا انہیں آگے جانے سے روکنے، احتجاج کا دورانیہ کم کرنے حَتّیٰ کہ میگا فون کا سائز کیا اور کون سا ہو گا اس پر بھی پولیس کو مکمل اختیار حاصل ہے کیونکہ بڑے اجتماعات کو کنٹرول کرنا کسی کے بھی بس میں نہیں ہوتا۔ چنانچہ پاکستان میں انتظامیہ اور پولیس کو یہ احتیار حاصل ہونا چاہئے کیونکہ عوام کی جان و مال کی حفاظت اُن کی ذمہ داری ہے یقیناً عمران خان ہو یا کوئی دوسرا سیاسی، مذہبی و سماجی رہنما قانون سے مبرا کوئی بھی نہیں ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ سیاستدان ہی جیلوں میں جاتے ہیں، پھانسی چڑھا دئیے جاتے ہیں، سیاستدانوں ہی کو دیس نکالے دئیے جاتے اور انہیں ہی عقوبت خانوں میں ڈالا جاتا ہے کیا باقی تمام ادارے اور اداروں کے سربراہ دودھ کے دھلے اور مسٹر کلین ہیں، ( قابل ستائش ہے کہ اب جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کا کورٹ مارشل ہونے جا رہا ہے) چلیں اب جبکہ یہ ثابت ہو چکا کہ جس طرح پہلے سیاستدان کرپشن کے مجرم تھے اسی طرح عمران خان پر بھی کرپشن ثابت ہو چکی اب ان کے دامن پر بھی وہی داغ ہے جو پہلے والوں پر تھا لیکن ضروری تو نہیں عمران خان پر قائم ان پونے دو سو مقدمات میں جب تک عدالتیں انہیں بری نہیں کرتیں وہ جیل میں ہی رہیں گے اس طرح تو کم از کم سو سال مزید چاہئیں فیصلے ہونے میں تو کیا بہتر یہ نہیں کہ ریاست، عدالت اور حکومت متفقہ طور پر ایک صائب فیصلہ کرے، عمران خان کو جیل سے ہاؤس اریسٹ کر دیا جائے اور توشہ خانہ کی کرپشن ہو، 190 ملین پاؤنڈ کی کرپشن ہو، ٹیرین وائٹ یا عدت میں نکاح کا کیس ہو، 24 نومبر، 9مئی، بلین ٹری سونامی، بی آر ٹی اور دیگر معاملات ان سب مقدمات و الزامات میں یکشمت ضمانت دے دی جائے اور ضمانت صرف ایک لی جائے کہ آج کے بعد عمران خان صرف سیاست کریں گے ، جرنیلوں، ججوں ، بیوروکریٹس اور پولیس افسروں کو دھمکیاں نہیں دیں گے، اوئے توئے، چور ڈاکو، سوقیانہ زبان، ذومعنی و دھمکی آمیز جملے بازی، ریاست و حکومت کے مقتدرہ اداروں کی تضحیک نہیں کریں گے ، تکبر ، گھمنڈ ، انا پرستی ، غرور ، نرگسیت ، نفرت ، بدزُبانی ، گالم گلوچ ، بد اخلاقی ، غیرمہذبی ، کج خلقی ، ڈھٹائی ، بے معنی کی الزام بازی ، بے ادبی ، بَد خَصْلَتی ، بد مزاجی ، جہل ، کج خلقی ، بد طینیتی ، تُنک مزاجی ، بے سَلیقگی ، بد اطواری ، ناشائستگی اور بد فعالی سے مکمل پرہیز و در گزر کریں گے اور اندرون و بیرون ملک ایسے افراد سے قطعی لاتعلقی کا واضح اعلان کریں گے جو پاکستان کو بطور ریاست کمزور کرنے کی سازش اور گالم گلوچ میں ملوث ہوں گے اورعمران خان ایسے افراد کی بھی بیخ کنی کریں گے جو کسی ریستوران میں بیٹھے، کسی راہ چلتے یا کسی کی گاڑی کے پیچھے بھاگیں گے،کسی ائر پورٹ پر یا کسی جہاز میں سفر کرنے والے مخالف نقطہ نظر رکھنے والوں کو خوامخواہ تنگ کریں اور گالیاں بکیں گے۔ مجھے کامل یقین ہے عمران خان میری اس درخواست پر غور و عمل کر سکتے ہیں کیونکہ میری تمام تر معروضات کا تعلق امن و آشتی و اخلاقی قدروں سے ہے ۔ چنانچہ عمران خان ادب کا یہ سبق خود پر لاگو اور اپنے فالورز کو پڑھا دیں تو ڈسکریشن پاور رکھنے والوں سے میری اپیل ہے کہ میرے اس کرکٹنگ ہیرو کو رہا کر دینا چاہئے، پلیز۔
یورپ سے سے مزید