• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی بحران کے حل کیلئے مخالف سیاسی جماعتوں کے مذاکرات انتہائی خوش آئند اور پوری قوم کے دل کی آواز ہیں لیکن فی الحال یہ مذاکرات نیم دلی کے ساتھ کئے جا رہے ہیں۔ کوئی بھی میز پر کچھ ہارنا نہیں چاہتا دونوں فریق میز سے جیت کر ہی جانا چاہتے ہیں، اس لئے فی الحال کوئی نتیجہ نکلتا نظر نہیں آتا۔ مذاکرات میں سنجیدگی کی پہلی علامت جنگ بندی ہو گی۔ دنیا بھر میں صلح اور امن کے مذاکرات فائربندی کے بعد شروع ہوتے ہیں۔ اب ایک طرف تحریک انصاف کا گالی بریگیڈ دشنام کی بندوق تانے فائر کر رہا ہو اور دوسری طرف مقتدرہ اور حکومت کوئی بھی رعایت دینے کو تیار نہ ہوں تو مذاکرات سے کوئی نتیجہ کیسے نکل سکتا ہے؟

مذاکرات کیلئے ماحول بنانا پڑتا ہے، ایک دوسرے پر الزامات لگانے سے رکنا پڑتا ہے، اپنی ضد اور انا کو ختم کرنا پڑتا ہے۔ مذاکرات تب کامیاب ہوتے ہیں جب دونوں فریق صرف جیتنے پر ہی مصر نہ ہوں ہارنے کیلئے بھی تیار ہوں ۔لچک مذاکرات کی کامیابی کو یقینی بناتی ہے ایک طرف فوجی عدالتیں سزائیں سنا رہی ہوں اور دوسری طرف عمران خان کہہ رہے ہوں کہ مذاکرات کے دوران بھی ترسیلات زر بند کرنے کی مہم جاری رہے گی تو مذاکرات کی کامیابی کا کوئی روشن امکان نظر نہیں آتا۔ سب کی خواہش ہے کہ ورکنگ ریلیشن ہو، سب کی خواہش ہے کہ سیاسی استحکام آئے، سب کی خواہش ہے کہ روز روز کے دھرنے اور اسمبلی کے اندر ہنگامے ختم ہوں لیکن ان خواہشوں کے باوجود اگر کوئی لچک نہ دکھائی گئی تو پھر مذاکرات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔

کوئی مانے نہ مانے لیکن بقول جماعت اسلامی کے لیاقت بلوچ صاحب، تحریک انصاف کے حکومت سے مذاکرات کا مطلب یہ ہے کہ تحریک انصاف نے اس نئے نظام کو اور 8فروری کے الیکشن کو تسلیم کر لیا ہے بظاہر وہ عبوری یا مجبوری کے طور پر ہی نظام کو تسلیم کر رہے ہونگے مگر یہ ایک بہت بڑی لچک ہے اگر یہ لچک عمران خان کی منظوری سے آئی ہے تو اس سے سیاسی مصالحت کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ دوسری طرف حکومت کا پی ٹی آئی کے ساتھ بیٹھنا بھی کافی خطرناک ہے کیونکہ مقتدرہ 9مئی اور 26نومبر کے ملزموں کو انتشاری قرار دے چکی ہے، حکومت مقتدرہ کی مرہون منت ہے اس لئے اسکے ہاتھ بندھے ہیں، نہ وہ مقتدرہ کے خلاف کئے گئے جرائم کی معافی دے سکتی ہے اور نہ ہی پی ٹی آئی کو وہ سیاسی جگہ دے سکتی ہے جو وہ خود استعمال کر رہی ہے، حکومت کے پاس پی ٹی آئی کو دینے کیلئے سوائے نیک خواہشات کے کچھ نہیں۔ البتہ پی ٹی آئی کو زیادہ سے زیادہ عمران خان کی بنی گالا میں نظربندی اور ایک دھاندلی کمیشن کا قیام مل سکتا ہے لیکن اس کے بدلے میں عمران خان کی طرف سے نظام کو تسلیم کرنا اور خاموش رہنا بڑی شرائط ہونگی۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس معاملے میں دونوں طرف سے کتنی گنجائش اور لچک دکھائی جاتی ہے۔ مقتدرہ کی طرف سے معافی طلب کرنے والے 9مئی کے مجرمان کی رہائی ایک خوش آئند اقدام ہے اس سے ماحول میں بہتری آنی چاہئے۔

یہ درست ہے کہ عمران خان مسلسل جنگجو رہے ہیں، ماضی میں بھی مزاحمت، جارحیت اور جلوس و دھرنوں کی سیاست کرتے رہے ہیں لیکن حالیہ دو برسوں میں وہ اپنا کوئی بھی ہدف حاصل نہیں کر سکے بلکہ الٹا یہ ہوا ہے کہ انکی ساری سیاسی چالیں الٹی پڑ گئیں۔ 9مئی ہو، 8فروری ہو یا پھر 26نومبر ہو وہ جو بھی چاہتے تھے وہ نہ ہوسکا اور آج کی صورتحال یہ ہے کہ وہ مقبول ہونے کے باوجود پہلے معزول ہوئے پھر انہیں قبولیت سے محروم ہونا پڑا، ایسے میں انہیں معقولیت سے وقت گزارنا چاہئے تھا مگر وہ اس سے الٹ راستے پر چلے اور مزید مشکلات کا شکار ہوتے چلے گئے۔ انہیں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی مثال پر عمل کرتے ہوئے اپوزیشن میں بیٹھ کر نظام کا حصہ رہنا چاہئے تھا۔ اگر وہ اس حکمت عملی پر عمل کرتے تو اب ان کے مقتدرہ سے تعلقات بہتر ہوگئے ہوتے اور آج وہ شہباز شریف کے متبادل بن کر عوام اور فوج دونوں کے دلوں کی دھڑکن بن چکے ہوتے مگر انہوں نے مقابلے کی ٹھانی، طاقت سے ٹکرانے کا فیصلہ سراسر غلط تھا، ایک تنہا سیاسی لیڈر اور ایک غیر مسلح غیر منظم سیاسی جماعت ایک منظم اور آئینی طور پر مسلح فوج کا مقابلہ کیسے کر سکتی ہے۔

بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ کہا کرتے تھے جمہوریت کہیں پھنس جائے تو اس کا علاج آمریت یا جنگ نہیں ہوتا بلکہ اس کا علاج مزید جمہوریت ہے ۔حالیہ مذاکرات میں جہاں تعطل آئے، جہاں رکاوٹ آئے اس کا حل مزید مذاکرات ہیں، بات چیت ہوتی رہی تو کوئی نہ کوئی حل ضرور بر ضرور نکل ہی آئے گا۔ دونوں طرف کی مذاکراتی ٹیموں سے عرض ہے کہ وہ دور گیا جب صرف جنگجو بہادر اور سورمے ہیرو اور آئیڈیل ہوا کرتے تھے ،اب امن کروانیوالے، صلح کیلئے سہولت دینے والے اور دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے والے بھی ہیرو اور آئیڈیل ہیں۔ مشرقی دنیا قذافی، صدام اور حافظ الاسد کو پوجتی رہی جبکہ مغربی دنیا انوار السادات کی صلح پسندی کی داد دیتی رہی۔ دنیا 20 صدیاں لڑ کر، جنگیں بھگتا کر اور نفرتیں پال کر 21 ویں صدی میں آگاہ ہو چکی ہے کہ مفاہمت، مصالحت، معاہدے ہی بہترین راستہ ہیں۔ پاکستان نے بھی اگر جدید دنیا میں قدم رکھنا ہے، ٹیکنالوجی میں آگے جانا ہے یا خوشحالی کی طرف بڑھنا ہے تو اسکی بنیاد اپنے تنازعات کو ختم کرکے ہی پڑسکتی ہے۔ سیاسی عدم مفاہمت پاکستان کی معاشی اور سماجی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ مصالحت کو، لچک اور ایک دوسرے کو جگہ دینے سے باآسانی حاصل کیا جاسکتا ہے۔

اگرچہ فی الحال مذاکرات کی کامیابی کا امکان کم ہے، کوئی بڑا ریلیف بھی کسی فریق کو ملنے والا نہیں، کئی بار مذاکرات تعطل کا شکار ہونگے مگر پھر بھی مذاکرات ہی واحد حل ہیں۔ پاکستان کی مستقبل کی تاریخ میں لڑانے والوں کا نہیں صلح کروانے والوں کا نام سنہری حروف میں لکھا جائے گا ۔21ویں صدی کے ہیرو ہٹلر اور سٹالن نہیں بلکہ برٹرینڈرسل ہے جس نے جنگ بندی کی بات کی، اس کے خلاف مہم چلائی، جلاوطنی تک اختیار کی مگر امن کا الاپ کرتا رہا۔ آج کی سیاست میں کوئی نوابزادہ نصراللہ خان تو نہیں ہے مگر حکومت اور اپوزیشن میں سے جو بھی مفاہمت کروانے میں کامیاب ہو گا وہ خودبخود آج کے پاکستان کا نوابزادہ نصراللہ خان بن جائے گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہم جنگوں کے شوقین کب امن کے متوالے اور مفاہمت کے پیروکار بنتے ہیں۔

تازہ ترین