تاریخی کتب کی اگر ورق گردانی کریں تو پتا چلتا ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں اسلام کی تبلیغ و اشاعت کا سہرا صوفیائے کرام اور اولیائے عظام کے سر پر رہا ہے۔ برصغیر پاک و ہند کے اکابر اولیائے کرام میں سے ایک خانقاہ کچھوچھ شریف تارک السلطنت سیّدنا مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کچھوچھوی انڈیا والے کی بھی ہے۔ آپ ہی کے جانشین و خانوادے کی ایک بطل شخصیت و فرد سیّد مختار اشرف اشرفی، المعروف سرکارِ کلاں ہیں۔
آپ آل نبی، اولادِ علی شیخ عبدالقادر جیلانی پیرانِ پیر کی اولادوں میں سے ہیں۔ آپ کی ولادت26 جمادی الثانی 1333ھ کو سلطان المناظرین سید احمد اشرف اشرفی کے یہاں ہوئی۔ جامعہ اشر فیہ کچھوچھہ شریف مفتی عبدالرشید ناگپوری اور مولانا عماد الدین سنبھلی سے میزان تا شرح وقایہ اور ابتدائی عربی و فارسی سے لے کر شرح جامی تک کی تعلیم حاصل کی، پھر جامعہ اشرفیہ کچھوچھہ سے فراغت کے بعدجامعہ نعیمیہ مرادآباد میں صدر الافاضل، مفتی نعیم الدین مراد آبادی کے پاس دورہ حدیث اور دینی تعلیم مکمل فرمائی۔ ارادت و خلافت آپ کو اپنے جدِ امجد سیّد علی حسین اشرفی میاںؒ سے حاصل تھی۔
آپ نے1355 سے اعلان سجادگی کے ساتھ1381 ہجری تک فتویٰ نویسی بھی فرمائی۔ بعدازاں سجادگی کی مصروفیت کو ترجیح دیتے ہوئے اس سے رخصت ہوئے، آپ نے پہلا حج 1952 ء جب کہ چوتھا1992ء میں فرمایا۔ علاوہ ازیں دنیا کے بیش ترممالک کے سفر بھی کیے۔
آپ کے ذات کی نمایاں اوصاف میں ایک ایسی صفت جس کے بارے میں آپ کے صاحبزادے سیّدنا اظہار اشرف اشرفی رشک کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’آپ ایک مثالی، شفیق و رفیق باپ کا درجہ رکھتے تھے، جہاں شریعت نے اولاد پر باپ کے حقوق رکھے ہیں، وہاں ایک والد پر بھی اولاد کے حقوق عائد ہوتے ہیں۔ بلاشبہ، میرے والد ایک مثالی والد تھے۔‘‘
یہاں حدیث نبوی کا وہ حصّہ یاد آتا ہے کہ ’’وہ ہم میں سے نہیں، جو ہمارے چھوٹوں پر شفقت اور بڑوں کی تکریم نہ کرے۔‘‘ ایک مثالی والد کی حیثیت سے آپ اپنی علالت اور بیماری کے ادوار میں اپنے صاحب زادے سیّدنا اظہار اشرف اشرفی کے گھر میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ شفا اور روبہ صحت کے بعد رخصت ہوتے ہوئے، بیماری، تیمارداری اور عیادت کی غرض آنے والے مہمانوں کے تواضع پر اٹھنے والے تمام اخراجات کا مکمل حساب کرکے اپنے صاحب زادے کو لوٹانے لگے تو فرماں بردار، حلیم و قلب سلیم صاحب زادے نے لینے سے انکار کردیا تو اپنی بہو کو بطور تحفہ دے کر لکھنؤ سے کچھوچھ شریف رخصت ہوگئے۔ ایسی زرّیں مثال، قابلِ تقلید عمل اور خوشبو کے مانند ہیں۔
باپ کا اولاد پر حق یہ ہے کہ وہ ان کی اچھی تربیت کرے، ان کے اچھے نام رکھے، انہیں علم و ادب سے آراستہ کرے، انہیں نیک اور صالح بنانے کی کوشش کرے، جب چھے سال کی عمر تک پہنچ جائے، تو اسے نماز پڑھنے کا حکم دے، دس سال کا ہوجائے، تو اس کا بستر الگ کردے اور جب بالغ ہوجائے، تو اس کی شادی کرے۔ (بہیقی، شعب الایمان وابن حبّان فی الثقات)آپ کے صاحب زادے آپ کی ان ہی خوبیوں کے اعتراف کا برجستہ و برملا اظہار کرتے ہوئے رشک آمیز انداز میں والہانہ سیرتِ نبوی سے یہ منظر پیش کرتے ہیں۔
حضرت انس بن مالک ؓسے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنےارشاد فرمایا،’’اپنی اولاد کو شریف بناؤ اور انہیں اچھاادب دو۔‘‘ (ابنِ ماجہ،کتاب الادب) انہی اعلیٰ نبوی تعلیم کے آثار و کردار سے آپ کی نادرالوجود ذات و شخصیت سجی اور بھری پڑی تھی۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ ہمارے شاگردِ رشید، ماتحت اور اولاد ہمارے قول و فعل اور گفتار سے زیادہ ہمارے عمل و کر دار اور زرّیں نقوش کے عامل اور اس کے اسیرو پابند ہوتے ہیں۔
حضرت مخدوم المشائخ نے ایک باپ ہونے کی حیثیت سے اس ذمّے داری کو پورے طور سے ادا کیا ہے۔ آپ نے تاحیات اپنی اولاد اور اہل و عیال، بلکہ دور کے رشتے داروں پر خرچ کیا ہے۔ کیوں کہ آپ کو معلوم تھا، حدیث شریف میں ہے ’’آدمی اپنی اور اپنے اہل و عیال اور خادم پر جو کچھ خرچ کرتا ہے، وہ اس کے لیے صدقہ ہے۔‘‘(ابنِ ماجہ)
آپ کی تربیت کا فیضان و عرفان کا رنگ آپ کے اولاد و شاگردوں میں نظر آتا ہے، ان ہی میں سے ایک احسن اشرف اشرفی کی بھی ذات ہے، جو متواتر پوری دنیا کے سفر فرماتے رہے، اس دوران دور دراز شہر، گاؤں اور پسماندہ علاقوں میں اسلامی تصوف، اخلاق و کردار کی اصلاح کرنے میں سخت جدوجہد و محنت و مشقت سے دریغ نہیں کرتے، اور سالکین و طالبان کو سلسلہ عالیہ چشتیہ اشرفیہ کی ترویج و اشاعت کے لیے انہیں خرقۂ خلافت کے انعام و اکرام سے نوازتے، یہ جہاں ان کی عطا و سخا ہے، اس کے ساتھ اشاعتِ دین و تصوف کا ایک بہترین ذریعہ بھی ہےاور اپنے دادا سرکارِ کلاں کا مظہر ہونے کااثبات بھی کرتا ہے۔ سرکارِ کلاں کی ان نمایاں سیرتِ نبوی پر عمل درآمد کردار اور اوصاف حسنہ نے عالمِ اسلام کے عوام اور علماء میں آپ کو یکساں مقبول بنادیا تھا۔
آپ کی ذات علمائے ہند و پاکستان میں یک ساں معتبر تھی۔ جامعہ کراچی کے سابق رئیس الکلیہ پرفیسر ڈاکٹر جلال الدین نوری فرماتے ہیں، ’’دور طالب علمی میں دارالعلوم امجدیہ میں بزمِ طلبہ کے مدیر کی حیثیت سے آپ کو استقبالیہ بھی دیا تھا، مفتی اعظم ہند حضرت مصطفیٰ نوری ؒ کاجنازہ اور تحریک پاکستان کے کارکن اور قائد اعظم محمد علی جناح کے دستِ راست مولانا عبدالحامد بدایونیؒ کا جنازہ بھی آپ نے ہی پڑھایا تھا۔ آپ کی ذات خدمتِ دین کے لیے وقف تھی۔تاحیات خلقِ خدا کی رشد و ہدایت میں مصروف رہے۔لوگوں تک دین حق کا پیغام پہنچایا۔ راہِ حق دکھایا۔ یقیناً آپ کی دینی و عملی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔
سیّد مختار اشرف اشرفی کا انتقال9رجب المرجب 1417ھ بمطابق 21نومبر1996ء کو ہوا۔ نمازِ جنازہ بروز جمعہ مغرب و عشاء کے درمیان سیّد اظہار اشرف اشرفی جیلانی کچھوچھوی سجادہ نشین خانقاہ سرکار کلاں کچھوچھہ نے پڑھائی۔ آپ کا مزار کچھوچھ شریف ہند میں مرجع خلائق ہے۔
ہر سال مر کز کچھو چھہ شریف کےاہتمام و انصرام کے پوری دنیا میں آپ کا عرس نہایت عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے، امسال بھی بزمِ سر کلاں پاکستان کراچی کے زیرِ اہتمام اورنگی ٹاؤن گلشنِ بہار مین مارکیٹ میں مریدِ سرکارِ کلاں خلیفہ حضور احسن العلماء مولانا ابو البیان محمد شاداب متین اشرفی سجادۂ نشین درگاہ عالیہ اشرفیہ زاویۃ النعیم کل 9 رجب کی شب کو آپ کا عرس منعقد ہوگا، جس میں معروف علماء و مشائخ اور اہلیان و محبان تصوف شرکت کریں گے۔
سیدی مختار اشرف رونقِ عرفانِ حق
رہنمائے اہلِ سنت صاحب فیضانِ حق