حافظ عمران حمید اشرفی
اسلامی تعلیمات نہ صرف آخرت میں چین وسکون کی راہیں کھولتی ہیں، بلکہ دنیوی زندگی میں اطمینان، سکون اور ترقی کی ضامن ہیں۔ اسلام کی اس بے پناہ مقبولیت کا ایک سبب مساوات ہے، جس سے صدیوں سے درماندہ لوگوں کو نئی زندگی ملی اور وہ مظلوم طبقہ جو ظالموں کے رحم وکرم پر تھا، اسے اسلام کے دامن محبت میں پناہ ملی۔
اسلام نے جہاں اعلیٰ اخلاقیات کا حکم دیا، وہیں مجرموں اور قیدیوں کے حقوق بھی بیان کردیے ، تاکہ کسی کے ساتھ کوئی ظلم نہ ہوسکے۔دین اسلام نے انسان ہونے کے اعتبار سے قیدیوں کے ساتھ بھی حتی الامکان حسنِ سلوک روا رکھنے کا درس دیا۔
قرآن حکیم میں واضح ہدایات ہیں کہ انسان کو سب سے پہلے اللہ پر ایمان کو پختہ کرنا چاہئے۔ اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ انسان اگر دنیا میں اپنے اعمال کی سزا پالے، اور آئندہ توبہ کرلے، تو اُسے آخرت کی سزا نہیں ہوگی۔ اس بارے میں بھی قیدیوں کا ایمان مضبوط بنانا چاہیے۔ عبادات میں قیدیوں کو مصروف کرنا، اس سے قید کے دوران اور بعد کی زندگی میں بہت عمدہ اثرات سامنے آتے ہیں۔
اسلام اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ انسانی معاشرت اور اس کے اصولوں پر عمل کرنے کا قیدی کو پابند بنایا جائے، اس کے رویے کی اصلاح پر بھی خصوصی توجہ دی جائے۔ جب وہ خود قید سے باہر نکل کر عام انسانوں سے مثبت رویہ رکھے گا تو جواب میں اُسے بھی مثبت رویہ ملے گا۔
قیدی کی روحانی بیماریوں کو دور کرنے کی کوشش کرنا۔ جیسے حسد، بغض، کینہ، مال کی محبت اور بےجا نفرت وغیرہ۔ قیدی کے اندر برے اخلاق یعنی بری عادتوں کو اس کے اندر سے نکالنے کی کوشش کرنا جیسے جھوٹ، غیبت، بہتان تراشی اور جھوٹی گواہی وغیرہ۔ قیدی کے اندر اچھے اخلاق پیدا کرنے کی کوشش کرنا۔ جیسے صبر، شکر، عفو و درگزر اوراحسان وغیرہ۔ ان میں خدمت خلق کے جذبات پیدا کرنا، تاکہ وہ جیل سے باہر نکل کر اسی خدمت کے جذبے کی وجہ سے معاشرے کا مفید فرد بن جائے۔
قیدی کو ایک نارمل انسان کی طرح آداب سکھانا ۔جیسے ملاقات کے آداب، محفل میں جانے اور بیٹھنے کے آداب وغیرہ۔ منفی جذبات سے بچنے کی تربیت دینا اور منفی جذبات میں آکر کسی بھی قسم کے جرم سے بچنے کی تربیت دینا۔ جیسے جذبہ انتقام اور غصّے کے جذبات وغیرہ۔یہ تمام امور درحقیقت قیدیوں کی اصلاح اور کردار سازی کا موثر ذریعہ ہیں۔ جن پر عمل کرکے مجرمانہ ذہن رکھنے والے قیدیوں کی اصلاح کی جاسکتی ہے۔
قیدی کو اپنے اوپر مزید ظلم سے بچانا۔ انہیں خوراک عام انسانوں کی طرح دینا۔ قیدیوں کے لباس کو باعزت بنانا۔ قیدیوں کے لئے جسمانی صفائی اور پاکیزگی کا انتظام کرنا۔ اگر کوئی قیدی غیر تعلیم یافتہ ہو تو اسے تعلیم دینا۔ اگر تعلیم یافتہ ہو تو اس کی تعلیم سے فائدہ اٹھانا۔ اگر نفسیاتی یا ذہنی بیمار ہو تو اسے علاج کی سہولتیں مہیا کرنا۔ اس کے بیوی بچوں سے ملاقات کا انتظام کرانا۔ انہیں مذہبی و روحانی تعلیم دینا۔ ان کی نفسیات کو بہتر بنانے کی کوشش کرنا۔
قیدی کو اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونے کا ماحول مہیا کرنا۔ قید سے نکل کر معاشرےکا ایک مفید فرد بنانے کی کوشش کرنا۔ قید کے دوران با اخلاق، تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ عملہ مقرر کرنا۔ مجرم کے جرم کے مطابق قید کے دوران اسے سہولتیں مہیا کرنا۔ قیدی کو انسانی ضروریات کے مطابق رہائشی سہولتیں مہیا کرنا۔ دورانِ قید، قیدی کو عدالتی اور تفتیشی امور کے بارے میں آگاہ رکھنا۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق کوئی شخص بھی پیدائشی مجرم نہیں ہوتا اور مجرم کو قید کرنے کا مقصد انسداد جرائم ہے، تاکہ معاشرے میں امن و سکون قائم ہو، دوسری طرف قید کا مقصد، جرم کا بدلہ اور سزا مقصود ہوتی ہے اور اس سے یہ بھی مقصود ہوتا ہے کہ دورانِ قید اس کی اصلاح کی جائے۔ سزا اس لئے دی جاتی ہے کہ معاشرہ مجرم کی تخریبی کارروائیوں سے محفوظ ہوجائے اور اس کی اصلاح بھی ہوجائے۔ جب مجرم کو آزاد معاشرے سے الگ کر کے قید میں رکھا جاتا ہے تو اس پر آزادی کی قدر و منزلت واضح ہوجاتی ہے۔
قدیم زمانے میں قید کی سزا کو مزید تکلیف دہ بنادیا جاتا تھا، جیسے مارپیٹ کرنا، قیدیوں کو فاقے سے رکھنا، آگ میں ڈالنا یا لوہے کو آگ میں پگھلا کر داغنا جیسا کہ دورِ جدید کے بعض قید خانوں میں سگریٹ سے داغا جاتا ہے، لیکن آج کے دور میں قید کی سزا کو جدید ترین خیالات کے ذریعے سہولتوں والا بنایا جارہا ہے۔ ایک عام خیال ہے کہ قید کی سزا جس قدر سخت ہوگی، اس قدر جرائم کے انسداد، اور ان کے خاتمے میں مدد ملے گی اور مجرم کی اصلاح ہوگی۔
ایک قسم کے لوگوں کا خیال یہ ہے کہ قید کی سزا کو جتنا سخت رکھا جائے، اتنا بہتر ہے، تاکہ مجرم کو پہلے سے یہ احساس ہو کہ مجھے اس جرم کے بدلے کتنی اذیت کا سامنا کرنا پڑےگا۔ لیکن اس خیال کی تردید میں کہا جاسکتا ہے کہ قید کی سزا اگر سخت بھی ہو، لیکن اس سےمجرم کو جرم سے باز نہ رکھا جاسکے یا قیدی کی اصلاح نہ کی جاسکے تو پھر قید کے اندر سختی کا مقصد ختم ہوجاتا ہے۔
سزا کے اصلاحی نقطہ ٔ نظر کے مطابق جو آج کل کے دورِ جدید میں رائج ہے، اس میں بسا اوقات یہ کہا جاتا ہے کہ جرائم کا اصل سبب چونکہ معاشرہ ہے، اس لئے کسی فرد کو جرم کے بعد انفرادی حیثیت سے جرم کا ذمے دار نہیں ٹہر ایا جاسکتا ،اس نقطۂ نظر والے لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ معاشرے کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ مجرم کو قید کی سخت سزاد ی جائے، اس لیے مجرم کو سزادینے کے بجائے اس کی اصلاح ہونی چاہئے ،تاکہ وہ دوبارہ معاشرے کا مفید فرد بن کر زندگی گزارسکے۔
مجرم کو نہ تو معاشرے کا دھتکارا ہوا انسان تصور کیا جائے ،نہ ہی اس کے خلاف نفرت پر مبنی پالیسی اختیار کی جائے۔ ہماے ملک کے اکثر جیل خانوں کے غیر صحت مندانہ سلوک کی وجہ سے مجرم اور زیادہ بھٹک جاتا ہے۔ پھر یہ قیدی اقتصادی، عائلی اور نفسیاتی مسائل سے دوچار ہوجاتے ہیں۔پھر جب انہیں قید کے لیے جیل میں بھیج دیاجاتا ہے تو ان کی معاشی الجھنیں اور بڑھ جاتی ہیں جب یہ رہا ہوتے ہیں تو ان کی حالت خستہ تر ہوچکی ہوتی ہے۔
انہیں رہائی کے بعد اچھے روزگار نہیں ملتے، لوگ ان سے نفرت کرتے ہیں، انہیں کسی قسم کا سماجی تعاون حاصل نہیں ہوتا، اس لیے انہیں بھی معاشرے سے ایسی نفرت ہوجاتی ہے کہ پھر وہ اپنی اس نفرت کا اظہار منفی سرگرمیوں کے ذریعے کرتے ہیں ،چنانچہ مفکرین کو یہ خیال پیدا ہوا کہ پولیس ، جیل اور قید کے نظام کی اصلاح ہونی چاہئے۔
چنانچہ اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے جرم سے نفرت کرنا تو سکھایا، لیکن انسان سے نفرت کرنا نہیں سکھایا، اس لیے اسلامی تعلیمات میں قید کے اندر انسان کے کردار کی اصلاح کی کوشش کرنے کو کہا گیا اور قید کے دوران اس کی اخلاقی تربیت اور اس کے نفسیاتی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
خاص طور پر اس کے ایمان کے بارے میں محنت کی جاتی ہے ،اس کا کامیاب تجربہ پاکستان کے مشہور دینی ادارے جامعہ اشرفیہ لاہور کی زیرِ نگرانی کئی جیل خانوں میں قیدیوں کے لیے دینی و مذہبی تعلیم اور اخلاقی تربیت کا بھی اہتمام کیا گیا، جس سے بہت ہی مفید نتائج سامنے آئے۔ چنانچہ اُن کے لیے قرآن مجید کی تعلیم کا اہتمام کیا گیا اور جیلوں کے اندر ترجمے کے ساتھ قرآنِ حکیم کی تعلیم دینا شروع کی گئی۔
گزشتہ کئی سالوں سے یہ کام ہورہا ہے اور قیدیوں کے لیے باقاعدہ یہ قانون بنایا گیا ہے کہ جو قیدی قرآن کریم کی مذہبی تعلیم حاصل کرے گا اور اپنے اخلاق کو بہتر بنائے گا تو اس کی سزا میں ایک حد تک تخفیف کی جاسکے گی، ہمارے اسکالرز نے ایک یہ پروگرام بھی ترتیب دیا کہ پاکستانی جیلوں میں جو ان پڑھ قیدی ہیں، انہیں مروجہ تعلیم دی جائے، یہاں تک کہ اگر وہ میٹرک پاس کرے تو اس کی قید سے کچھ سال کم کردیئے جائیں اور اگر وہ ایف اے، گریجویشن یا ماسٹر پاس کرتا ہے تو اس کی سزا میں ایک حد تک تخفیف کردی جائے۔
اس سے ہمیں قیدیوں کے بہت زیادہ بہتر نتائج ملے۔ اسی طرح پاکستان میں موجودہ اسلامی تعلیمات کے بورڈ وفاق المدارس العربیہ کے تحت لاہور پاکستان کے جیل خانوں میں قیدیوں کے لئے اسلامی تعلیمات کے مختلف کورسز شروع کرائے گئے۔
یہاں تک کہ خطرناک قیدیوں نے بھی ان کورسز میں شرکت کی۔ یہ کورسز ایک سالہ، دوسالہ ،تین سالہ اور چار سالہ ہیں اور ان کورسز کے ذریعے قیدیوں میں بڑی بہتری آئی ،یہاں تک کہ قانونی طور پر ان کے لیے تمام مشقتیں ختم کرکے قید کے دوران صرف دینی تعلیم ہی کو مختص کیا گیا، ان ہی میں سے چند قیدیوں نے باقاعدہ بورڈ کے اندر پوزیشنیں لیں، اس لئے آج یہ وقت کی بہت بڑی ضرورت ہے کہ قیدیوں کے لیے سہولیات پیدا کی جائیں۔
جب ہم اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں مختلف جرائم اور مختلف سزاؤں اور قیدیوں کے بارے میں بہت واضح گائیڈ لائنز اور رہنما خطوط ملتے ہیں، خود نبی کریم ﷺ نے ایک شخص کو مفاد عامہ کے پیش نظر قید فرمایا کہ اس پر چوری کا الزام تھا، لیکن جب اس کے جرم کو ثابت نہ کیا جاسکا تو آپﷺ نے اسے چھوڑ دیا۔
اسلام نے قید کے اندر سزاؤں کو شامل کرنے کے بجائے، قید کو مستقل ایک سزا قرار دیا ہے۔ اس لیے جو معاشرے کی سخت ترین جرم کی کیفیتیں ہیں، ان میں تو اسلام نے سخت سزائیں رکھی ہیں۔ کیونکہ وہ سب ایسے جرائم ہیں کہ جن کے خطرناک ہونے کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور اُن جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو معاشرے سے الگ کردینا یا ملک سے نکال دینا یہ بھی اس معاشرے کو بچانے کے لیے ضروری قرار دیا گیا۔
اس میں دو رائے ہوسکتی ہیں کہ اسلام نے قید کے علاوہ بہت سی سخت سزائیں رکھی ہیں، لیکن اگر بغور دیکھا جائے تو ترقی یافتہ ممالک میں بھی بعض مجرموں کو ہمدردی کے قابل نہیں سمجھا جاتا، البتہ جب قید کے اندر اصلاح کے پہلو کو سامنے رکھا جائے اور اخلاقی تربیت و نفسیاتی تربیت کا اہتما م کیا جائے تو یقیناً معاشرے کے اندر اس سے خیر کا پہلو سامنے آئے گا اور جرم کی اصل وجوہات کا خاتمہ، یہ بھی قید کے دوران اس مجرم کو معاشرے میں ایک مفید فرد بننے میں مدد دے سکتا ہے۔
اسلام نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ تمام انسان اللہ کی نظر میں برابر ہیں۔ انسان صرف اپنے نیک اعمال کی وجہ سے معاشرے کا ایک اچھا فرد بنتا بن سکتا ہے، لیکن جب انسان برائی کا ارتکاب کرنے لگے اور جیل میں جانے کی وجہ سے قید کے دوران اہلِ خانہ اس سے قطع تعلق کرلیں تو اس کے بھی منفی اثرات سامنے آتے ہیں۔
چنانچہ اسلامی تعلیمات میں قید کے دوران قیدی کی بیوی اور بچوں سے ملاقات اور اس کے انسانی حقوق کا بہت خیال رکھا گیا ہے۔ اس کے لیے باقاعدہ فقۂ اسلامی میں ضابطے بنائے گئے ہیں، اسی طرح سماجی مسئلوں میں قیدی کو عام زندگی سے بالکل کاٹ کے رکھ دینا یہاں تک کہ اسے غیر مفید فرد بنادینا، یہ بھی بہت بڑا المیہ ہے۔
اس لیے اسلامی تعلیمات میں یہ سوچ فراہم کی گئی ہے کہ ایک قیدی سے قید کے دوران اس کے وقت کو استعمال کیا جائے۔ خود نبی ﷺ نے قیدیوں سے معاشرتی خیر کے پہلو اختیار کئے اور یہاں تک ان قیدیوں سے کہا گیا کہ ہر قیدی معاشرے کے اتنے افراد کو تعلیم دے دے تو اسے آزاد کردیا جائے گا، اس لیے قید کے دوران قیدیوں سے مفید کام لینا، یہ بھی اسلامی تعلیمات کا ایک اہم حصہ ہے۔