تفہیم المسائل
سوال: ایک زمین دار منڈی میں آڑھت والے سے دس بیس لاکھ روپے قرض لے کر کاشت کاری کرتا ہے، اس خیال سے کہ جب میری فصل تیار ہوگی تو میں اس منڈی والے کو دوں گا، تاکہ وہ اپنا قرض کسی اضافے کے بغیر واپس لے لے اور اپنا کمیشن رکھ کر میری بقایا رقم مجھے واپس کردے، قرض دینے والے کے ذہن میں بھی یہی ہوتا ہے کہ یہ اپنی فصل میرے پاس لائے گا، لیکن دونوں طرف سے زبانی یا تحریری کوئی اقرار نہیں ہوتا، کیا شرعاً ایسا کرنا جائز ہے ؟(سید محمد قاسم شاہ ، بلوچستان)
جواب: قرض کی واپسی پرصرف طے شدہ اضافی روپے لینا ہی سود نہیں ہے، بلکہ قرض کی بِناء پر کوئی بھی مشروط نفع و فائدہ سود ہی ہے اور یہاں مقروض کو اگر پابند کردیا جائے کہ وہ اپنا غلّہ مخصوص آڑھتی کو ہی بیچنے یا اسی کے ذریعے کمیشن پر فروخت کرنے کا پابند ہوگا، ایسی لازمی شرط میں اُس قرض دینے والے آڑھتی کا نفع ہے اور یہاں کسان قرض لینے کی وجہ سے ہی اس بات کا پابند ہے، کیونکہ اگر قرض نہ لیاہوتا،تو کوئی بھی اس طرح پابند نہ ہوتا اور قرض کی وجہ سے جو بھی نفع حاصل کیا جائے، حدیث کے حکم کے مطابق وہ سود ہے۔
گندم یا فصل کسی پیشگی مشروط(Conditional) یا معہود (Understood) معاہدے کے بغیر آڑھتی کو فروخت کرنا شرعاً جائز ہے، بشرطیکہ اس کی مقدار معلوم ہو، تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے: ترجمہ:’’ بیع کے صحیح ہونے کے لیے شرط ہے کہ مبیع اور ثمن کی مقدار معلوم ہو، (جلد4،ص:506)‘‘۔
خریدوفروخت میں قیمت اور بیچی جانے والی چیز کا معلوم ہونا ضروری ہے، علامہ نظام الدین ؒ لکھتے ہیں: ترجمہ:’’مبیع یا ثمن کی جہالت بیع کے جائز ہونے میں مانع ہے، جبکہ اس کی وجہ سے سپرد کرنا متعذر ہو،(فتاویٰ عالمگیری، جلد 3، ص:122)‘‘۔
قرض اور بیع کا حکم ایک نہیں ہے، ایسا قرض جس کی واپسی کسی طے شدہ اضافے کے بغیر کی جائے، جائز ہے، اگر فریقین کے مابین فصل کی فروخت کی بابت کسی قسم کا تحریری یا زبانی کوئی معاہدہ یا اقرار نہیں ہے اور کاشتکار بھی پابند نہیں ہے کہ اُسی آڑھتی کے پاس اپنا مال فروخت کے لیے لائے جس سے قرضہ لیا ہے، اگر وہ اسی کے پاس مال لاتا ہے اور آڑھتی اس سے بازار کے نرخ سے زیادہ کمیشن وصول کرتا ہے ،تو سود ہے اور اگر اتنا ہی وصول کرے، جتنا قرضہ دیے بغیر آڑھتی وصول کرتے ہیں تو جائز ہے۔
علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’فتاویٰ تتارخانیہ میں ہے: کمیشن ایجنٹ کی اجرت مثلی واجب ہوگی اور جس پر انھوں نے اتفاق کیا کہ ہر دس دینار میں میرا اتنا کمیشن ہے، تویہ ان پر حرام ہے ، ’’حاوی‘‘ میں ہے : محمد بن مسلمہ سے کمیشن ایجنٹ کی اجرت کے بارے میں سوال کیا گیا، آپ نے فرمایا: میری فہم کے مطابق اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اگرچہ اصل میں یہ فاسد ہے، کیونکہ اس طرح کے کاروباری معاملات بکثرت ہورہے ہیں اور ان میں سے بہت سی صورتیں جائز نہیں ہیں، علماء نے لوگوں کی حاجت کے پیشِ نظر اسے جائز قرار دیا ہے، جس طرح حمام میں جانا۔ انھی سے روایت ہے: میں نے ابن شجاع کو دیکھا، وہ کپڑا بُننے والے سے معیّن اجرت پر کام لیتے، جو ہر سال ان کے لیے کپڑا بنتا تھا، (حاشیہ ابن عابدین شامی ،جلد6، ص:63)‘‘۔
البتہ جس دن قرض ادا کیا جارہا ہے، اس دن اتنی رقم کی رائج بازاری قیمت کے مطابق غلّہ دیا جائے تویہ جائز ہے اور اگرقرض دیتے وقت یہ وعدہ ہو کہ جو فصل تیار ہوگی، وہ آپ کو فروخت کروں گا، تو اس صورت میں قرض دینے والے کا اس غلے کو بازار میں رائج قیمت کے حساب سے خریدنا جائز ہوگا، لیکن دونوں صورتوں میں مارکیٹ ویلیو سے کم میں گندم کی خرید وفروخت جائز نہیں ہوگی، اس لیے کہ یہ قرض کی وجہ سے نفع لیا جارہا ہے اور قرض پر مشروط یا معہود فائدہ حاصل کرنا شرعاً سود ہے، اس لیے جائز نہیں ہے۔حدیث پاک میں ہے : ترجمہ:’’ قرض کے ذریعے جو منفعت حاصل کی جائے ،وہ سود ہے، (اس کی تخریج حارث نے سیدنا علی کرم اللہ وجہہ سے کی اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے اسے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا، (کنزالعمال: 15516)‘‘۔ اس کے جواز کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں :
پہلی صورت:کسان کو قرض دیتے وقت واضح الفاظ میں بیان کر دیا جائے کہ اس قرض کی بنیاد پر آپ مجھے مال فروخت کرنے کے پابند نہیں ہوں گے ، میں آپ سے بس اپنا قرض واپس لوں گا، مال فروخت کرنا یا نہ کرنا تمہاری مرضی ہو گی۔اس صراحت کے بعد قرض کا لین دین جائز ہو جائے گا۔
پھر اس کے بعد کسان کی اپنی مرضی ہے کہ کسی دوسرے کو بیچے یا اِسی آڑھتی کواوراس صورت میں قرض خواہ آڑھتی ہرگز اسے مجبور نہیں کرسکتا اور اگر کسان اپنی رضا مندی سے اسی آڑھتی کو مال بیچنا چاہے، تو اس کا بیچنا اور آڑھتی کا خریدنا بھی شرعاً جائز ہوجائے گا، جبکہ کوئی اور شرعی خرابی نہ پائی جائے۔
دوسری صورت: دوسری صورت بیعِ سَلَم کی ہے، رقم دینے والے اور لینے والے قرض کی صورت اختیار نہ کریں، بلکہ بیع سَلَم کی شرائط مدِ نظر رکھتے ہوئے باہم بیع سَلَم کر لیں، حدیثِ پاک میں ہے : ترجمہ:’’ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم ﷺ مدینہ آئے تووہاں کے لوگ دوسال اورتین سال کی مدت تک بیع سَلم کرتے تھے ،پس آپ ﷺ نے فرمایا: جو شخص کسی چیز میں بیع سَلَم کرے تو اس کا کیل( ناپ) اور وزن معلوم ہو اور ادائیگی کی مدت بھی معلوم ہو ، (صحیح بخاری:2240)‘‘۔
بیع سَلَم کے ذریعے اُن اشیاء کی خرید و فروخت بھی شرعی طور پر جائز ہوجاتی ہے، جو عقد کے وقت انسان کی ملکیت میں نہ ہوں اور اس معاہدے میں خریدار اس بات کا پابند ہوتا ہے کہ وہ چیز کا معاوضہ معاہدہ کرتے وقت ہی ادا کردے، البتہ چیز اسےایک طے شدہ مدت کے بعد ملتی ہے۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ پہلی صورت کے مطابق اپنی تیار فصل کسی پیشگی معاہدے کے بغیر اُسی شخص کو فروخت کریں ، جس سے قرض لیاتھا یا کسی دوسرے آڑھتی کو فروخت کریں، یہ اختیار آپ کو حاصل ہے۔ آڑھتی فصل فروخت کرنے کے لیے بازاری نرخ سے زائد کمیشن وصول نہ کرے اور قرض کی رقم بھی اتنی ہی وصول کرے ، جتنی قرض میں دی تھی۔
بیع سَلَم کی صورت میں غلّے کی مقدار، مدت اور اُس کی قیمت پہلے طے کرلیں، اس طریقے سے خرید و فروخت کرنے میں آڑھتی اور کسان دونوں کی ضرورت پوری ہو جائے گی، یعنی کسان کو فوری رقم مل جائے گی اور آڑھتی کو مخصوص مدت کے بعد پہلے سے طے شدہ مقدار میں غلّہ مل جائے گا،نیز ہمارے نزدیک یہی اَنسب ہے کہ بیعِ سَلَم کی صورت اختیار کی جائے ۔ (واللہ اعلم بالصواب )