مانچسٹر/لیڈز(ہارون مرزا/زاہد انور مرزا)برطانوی وزیراعظم سٹارمر کیئر نے انسانی اسمگلنگ میں ملوث نیٹ ورک گروہوں کیخلاف بھر پورکاروائیوں کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ نئے قوانین انسانی اسمگلروں ،دہشت گردوں ، سائبرکرائم میں ملوث بدعنوانوںکیخلاف زیادہ موثر طریقے سے اثر انداز ہوں گے۔ پابندیوں کا نیا نظام اسمگلروں کے بینک اکاؤنٹس، جائیدادوں اور دیگر اثاثہ جا ت کو منجمند کر نے کی اجازت دیںگے۔ انسانی اسمگلرز ہزاروں کشتیوں پر غیر قانونی طریقے سے لوگوں کو اسمگل کرنے کے ذمہ داراور کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔ اسمگلرز کو نئے قوانین کے تحت پہلی مرتبہ عوامی سطح پر بے نقاب کیا جا ئے گا۔مالیاتی اداروں اور دیگر کمپنیوں کو ان کی پہچان کرائی جائے گی تاکہ وہ قانونی طریقے سے انکا محاسبہ کر سکیں ۔جہاں جہاں انسانی اسمگلرز تکلیف دیں گے وہاں وہاں انکا گھیرا تنگ کیا جا ئے گا۔ہم ایک نئی پابندیوں کا اعلان کرنے جا رہے ہیں جو اپنی نوعیت کی انوکھی ہونگی ‘ اپنے اتحادیوں کے ساتھ ملکر انہیں پابند سلاسل کریں گے ۔ کنزرویٹو کے بار بار لیبر پر روانڈا پناہ کے معاہدے کو ختم کرنے کے لیے حملوں کے بعد جو چینل کراسنگ کو روکنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم نے مشورہ دیا کہ ان کے نئے اقدامات بھی روک تھام کا کام کریں گے یہ واضح نہیں کیا گیا کہ اسمگلنگ میںملوث گروہوں کی درست کتنی تعداد بیرون ملک مقیم ہے ور ان کے پاس نقدی اور اثاثہ جات کی تفصیلا ت کیا ہیں۔لیبر کے نئے اقدامات جن کے رواں سال کے آخر تک نافذ ہونے کی توقع ہے کے تحت یہاں برطانیہ میں اثاثوں کو منجمد کیاجاسکے گا ابھی تک ان افراد اور کمپنیوں کی تعداد کا پتہ نہیں چل سکا ہے جنہیں نشانہ بنایا جا سکتا ہے باورکیا جا رہا ہے کہ وہ نئی حکمت عملی کے نافذ ہونے سے قبل رقم بیرون ملک منتقل کر سکتے ہیں۔ برطانیہ میں مقیم افراد اور کمپنیاں جو تعمیل کرنے میں ناکام رہتی ہیں انہیں سخت سزاؤں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ نئے قوانین کے تحت بھاری جرمانے اور سزاؤں کا بھی سامنا کرنا پڑے گایہ اقدامات پارلیمنٹ کے ایکٹ کے بجائے ثانوی قانون سازی کے ذریعے لائے جائیں گے۔دوسری جانب سیکرٹری خارجہ ڈیوڈ لیمی نے کہا ہے کہ مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے فخر محسوس ہو رہا ہے کہ برطانیہ دنیا کا پہلا ملک بننے جا رہا ہے جس نے نئی پابندیوں کے نظام کے لیے قانون سازی کی ہے جو خاص طور پر بے قاعدہ ہجرت اور منظم امیگریشن جرائم کو نشانہ بناتی ہے اس سے برطانیہ میں غیر قانونی ہجرت اور تارکین وطن کی اسمگلنگ کو روکنے مقابلہ کرنے میںمدد ملے گی۔ برطانیہ میںلوگوں کو غیر قانونی طریقے سے اسمگل کرنیوالے نیٹ ورک کی کمر توڑنے کیلئے حکومت پرعزم ہے۔ اسمگلنگ نیٹ ورک کے مالی اثاثہ جات اور نئی پابندیوں کے تحت نشانہ بنایا جائے گاجس سے گروہوں کیلئے اسمگلنگ کے مکروہ دھندہ کو جاری رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ رواں سال غیر قانونی نقل مکانی کا کاروبار روکنے کیلئے مجوزہ اقدامات کو نافذ کر کے سختی سے عمل کرایا جا ئے گا۔انہوں نے ایک وسیع تقریر میںبرطانیہ کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات کا خاکہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ سرد جنگ کے بعد امن کا دور ختم ہو چکا ہے اور یورپ کی مستقبل کی سلامتی چھری کی دھار پر ہے ہمیں یہ قبول کرنا ہوگا کہ واپس جا نے کی کوئی صورت نہیں ہے ہمیں 1990 کی دہائی کو اپنے ویژن کو معدوم ہونے سے روکنا ہوگا پابندیاں اسمگلروں کے رقم کے بہاؤ میں خلل ڈالنے کے لیے متعارف کرائی جا رہی ہیں غیر قانونی نقل مکانی میں مدد کرنے والی کمپنیوں اور افراد پر نئے قوانین کے تحت ہاتھ ڈالنا آسان ہوگا۔ انہوں ے کہا کہ پابندیاں انتہائی تکنیکی اور قانونی ہیں اور نئی حکومت کو تیار ہونے میں کئی ماہ لگیں گے۔وزیراعظم اس نیٹ ورک کی کمر توڑنے کیلئے پرعزم ہیں۔2024 میں چھوٹی کشتیوں میں انگلش چینل کو عبور کرنے والے لوگوں کی تعداد ایک چوتھائی بڑھ گئی، جو 2023 میں 29,437 سے بڑھ کر 36,816 تک پہنچی تاہم یہ 2022 میں ریکارڈ 45,755 سے کم تھانومبر میں اعلان کردہ لوگوں کی سمگلنگ سے نمٹنے کے لیے بڑھے ہوئے اختیارات کے تحت برطانیہ کی بارڈر سیکیورٹی کمانڈ کو سمگلنگ نیٹ ورکس کے بینک اکاؤنٹس کو منجمد کرنے کی اجازت دی گئی لیمی نے کہا کہ ان کا محکمہ ہوم آفس کے ساتھ مل کر کام کرے گا تاکہ ہماری سرحدوں پر کنٹرول بحال کرنے کے لیے ہمارے اختیار میں موجود ہر ٹول کو استعمال کیا جا سکے۔علاوہ ازیں برطانوی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ جولائی کے بعد سے ریکارڈ تعداد میں مسترد شدہ پناہ گزینوں کو ملک بدر کیا گیا ہے۔برطانوی میڈیا کے مطابق وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ جولائی میں انتخابات کے بعد سے16ہزار400سے زائد "امیگریشن خلاف ورزی کرنے والوں اور غیر ملکی مجرموں" کو واپس بھیجا گیا ہے، جو 2018 کے بعد سے کسی بھی چھ ماہ کی مدت میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔بیان میں یہ بات نمایاں کی گئی ہے کہ برطانیہ کی حکومت کی امیگریشن پالیسی غیر قانونی افراد کی واپسی کو ترجیح دیتی ہے، جس میں ان لوگوں کی جلد ملک بدری پر زور دیا گیا ہے جو ملک میں رہنے کے اہل نہیں ہیں۔ حکومت نے اس بات پر زور دیا کہ یہ اقدامات روانڈا منصوبے جیسے متبادل منصوبوں سے زیادہ مؤثر ہیں، جنہیں اس کی زیادہ لاگت اور محدود دائرہ کار کی وجہ سے تنقید کا سامنا ہے۔