لندن (پی اے) ایک تھنک ٹینک چیتھم نے حکومت کو مشورہ دیاہے کہ برطانیہ کو چین کے ساتھ کلائمٹ چینج میں تعاون کے سمجھوتے پر دستخط کر دینے چاہئیں۔ گزشتہ ہفتہ چیتم ہاؤس کی جانب سے شائع کئے جانے والے مقالے میں کہاگیاہے کہ ایک رسمی ڈیل سے برطانیہ کو چین میں اور چین کو برطانیہ میں جرات مندانہ اقدامات کرنا ہوں گے اس طرح دونوں ملکوں کو مہارت کے تبادلے کا موقع ملے گا۔ اس مقالے کے ایک مصنف کرس ایلیٹ کا کہناہے کہ چین کو اپنے ملک میں جوآلودگی کے اخراج کے حوالے سے دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے آلودگی کے اخراج کو کم کرنے میں نمایاں مدد ملے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ساتھ یا ہمارے خلاف کا نقطہ نظر سرد جنگ کے دور سے تعلق رکھتا ہے۔ توازن قائم کرنا ممکن بھی ہے اور مطلوب بھی۔ یہ فون کال ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب چانسلر ریچل ریوز بیجنگ اور شنگھائی میں چین کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو بہتر بنانے کے مقصد سے متعدد ملاقاتیں کر رہی ہیں۔ یہ دورہ سابق وزیراعظم رشی سونک کے دور میں تعلقات منجمد ہونے کے بعد لیبر پارٹی کی بیجنگ کے بارے میں نرم رویہ کی تازہ ترین مثال ہے، حالانکہ حکومت کا اصرار ہے کہ جہاں ضرورت پڑی وہ چین کو چیلنج کرے گی۔ چیتھم ہاؤس کے مقالے میں آلودگی کے اخراج اور کاربن بجٹ سازی، کم کاربن ٹیکنالوجیز کی تعیناتی اور آب و ہوا کی تبدیلی سے پیدا ہونے والے خطرات سے نمٹنے جیسے شعبوں میں زیادہ تعاون کی تجویز دی گئی ہے۔ اس تحقیق کے شریک مصنفین میں سے ایک جیانگ وین گو نے کا کہنا ہے کہ برطانیہ اور چین موسمیاتی تبدیلی پر کامیاب تعاون کی ایک طویل تاریخ رکھتے ہیں۔ بڑھتے ہوئے جغرافیائی سیاسی عدم استحکام اور بعض حلقوں میں موسمیاتی قیادت کی برطرفی کے باعث ان کے پاس دوطرفہ تعاون کے فوائد کو ظاہر کرنے کا موقع ہے، اور اس طرح کثیرالجہتی کو فروغ دینے اور عملی ماحولیاتی اقدامات کو تیز کرنے کا موقع ہے، جو ہمارے تمام مفاد میں ہے۔ تاہم مصنفین نے امریکہ میں آنے والی ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے درپیش چیلنجز کا بھی اعتراف کیا اور کہا کہ چین کے بارے میں نئے صدر کا سخت موقف برطانیہ پر دباؤ ڈال سکتا ہے کہ وہ تمام شعبوں میں تعاون ترک کر دے۔ انہوں نے کہاکہ اپنے مقصد میں کاکامیاب ہونے کے لئے، برطانیہ اور چین کے ماحولیاتی تعاون کے کسی بھی نئے مرحلے کو ان چیلنجوں کا حساب دینا ہوگا اور اس طرح ڈیزائن کیا جانا چاہئے کہ یہ ناگزیر سیاسی عدم استحکام کا سامنا کرنے کے لئے لچکدار ہو۔ حکومت کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ ہماری توانائی کی سلامتی کے لئے سب سے بڑا خطرہ جیواشم ایندھن کی مارکیٹوں پر انحصار کرنا ہے اور صرف 2030 تک صاف بجلی کی طرف دوڑ کر ہی برطانیہ اپنی توانائی کا کنٹرول واپس لے سکتا ہے اور خاندانی اور قومی مالیات دونوں کو فوسل فیول کی قیمتوں میں اضافے سے بچا سکتا ہے۔ توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری قومی سلامتی کی اعلیٰ ترین سطح کی جانچ پڑتال سے مشروط ہے اور ہم چین کے ساتھ تعلقات کے انتظام کے لئے مستقل، طویل مدتی اور اسٹریٹجک نقطہ نظر اختیار کرتے ہیں اور جہاں ہم کرسکتے ہیں تعاون کریں گے، جہاں ہمیں ضرورت ہے مقابلہ کریں گے اور جہاں ہمیں ضرورت ہے وہاں چیلنج کریں گے۔ تبدیلی کے اپنے منصوبے کے ذریعے، ہم اپنے صنعتی علاقوں کو دوبارہ زندہ کریں گے کیونکہ ہم صاف توانائی کی منتقلی کے مواقع سے فائدہ اٹھائیں گے اور برطانیہ میں کاروباروں اور برادریوں کے لئے سرمایہ کاری اور برآمد کے مواقع کو فروغ دینا جاری رکھیں گے۔