تفہیم المسائل
سوال: شرعاً غسل کرنے کا صحیح طریقہ کیا ہے ؟، (جہانگیرعالم ،کراچی )
جواب: طہارت کی دو قسمیں ہیں :(۱) طہارتِ صغریٰ (۲) طہارتِ کبریٰ جن چیزوں سے صرف وضو لازم آتا ہے، اُنہیں حدثِ اصغر کہتے ہیں اور جن سے غسل واجب ہوجائے اُنہیں حدثِ اکبر کہتے ہیں۔ ایک غسل حدثِ اکبر کے ازالے کے لئے ہوتا ہے جسے ’’طہارتِ کُبریٰ ‘‘ کہا جاتا ہے، جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ترجمہ: ’’ اور اگر تم جُنبی ہو تو اچھی طرح پاکیزگی حاصل کرلو‘‘۔(سورۃ المائدہ:6)
ایک غسل اِزالۂ حدثِ اصغر اور جسمانی طہارت کے لئے ہوتا ہے، جوکہ بندگی کی نیت یا حضور نبی کریم ﷺ کی سنت کی نیت سے کیا جاتا ہے، باعثِ اجر ہے۔ جب غسل، جنابت یا حدثِ اکبر کے لئے کیا جائے تو مضمضہ اور استنشاق واجب ہے اور اگر غسل تطہیر کے لئے کیا جائے یا حدثِ اصغر کے لئے کیاجائے تو مضمضہ اور استنشاق سنّت ہے۔ غسل کا مسنون طریقہ یہی ہے کہ غسل اس طرح کیا جائے، جس میں سارے فرائض، سُنَن اور مُستَحبّات کی رعایت ہو اور ممنوعات سے اجتناب کیا جائے۔
حدیث مبارک میں رسول اللہ ﷺ کے غسل فرمانے کا طریقہ بیان کیاگیا ہے: ترجمہ:’’ اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب جنابت کا غسل فرماتے تو پہلے اپنے ہاتھوں کو دھوتے ،پھر اس طرح وضو فرماتے، جس طرح نماز کا وضو کرتے تھے ،پھر اپنی انگلیاں پانی میں داخل کرکے بالوں کی جڑوں میں خلال کرتے پھر اپنے ہاتھوں سے تین چُلّو پانی لے کر سر پر بہاتے ،پھر اپنے تمام جسم پر پانی بہاتے ،(صحیح بخاری، رقم الحدیث:248)‘‘۔
علامہ برہان الدین ابو الحسن علی بن ابو بکر فرغانی لکھتے ہیں: ترجمہ: ’’غسل کے فرائض میں مضمضہ (اس طرح کلی کرنا کہ پانی منہ کے سارے اندرونی حصے تک پہنچ جائے)، استنشاق(ناک کے نرم گوشے تک پانی پہنچانا اور سانس کے ذریعے اندر تک پانی چڑھانا) اور تمام بدن پر (تین مرتبہ) پانی بہانا ہے ‘‘۔
آگے چل کر غسل کا مسنون طریقہ لکھتے ہیں: ترجمہ: ’’غسل کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے غسل کرنے والا اپنے دونوں ہاتھ اور شرم گاہ دھوئے اور اگر بدن پر (کوئی ظاہری ) نجاست ہو تو نجاست زائل کرے ، پھر وضو کرے جیسا نماز کے لئے وضو کرتے ہیں اور دونوں پاؤں نہ دھوئے ،پھر اپنے سرپر پانی بہائے اور پھر تمام بدن پر تین بار پانی بہائے ،پھر اُس جگہ سے ہٹ کر دونوں پاؤں دھولے۔
حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ ﷺ کے غسل فرمانے کا طریقہ اِسی طرح بیان فرمایا اور دونوں پاؤں تاخیر سے (آخر میں) دھونے کا حکم اس لئے ہے کہ دونوں پاؤں غسل میں استعمال شدہ پانی جمع ہونے کی جگہ پر ہیں، اس لئے اُن کا دھونا مفید نہ ہوگا، ہاں! اگر کسی تختہ (یااونچی جگہ ) پر ہو تو پھر وضو کے وقت پاؤں بھی دھو لیے جائیں، پاؤں کے دھونے کو مؤخر کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور نجاست ِ حقیقیہ زائل کرنے کے ساتھ ابتدا کرے تاکہ پانی پہنچ کر بڑھ نہ جائے (یعنی پانی کے ذریعے اس نجاست کا اثر باقی بدن تک تک نہ پہنچے)، (ہدایہ ، جلد1،ص:44-45)‘‘۔
غرض غسل کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ پہلے سنت کے مطابق باقاعدہ وضو کریں اور پھر پورے بدن پر پانی ڈالیں۔ غسلِ جنابت میں کلّی کرنا اورناک میں اندر تک پانی ڈالنا فرض ہے، غسلِ طہارت اور غسلِ مسنون میں یہ دونوں امور فرض نہیں بلکہ سنت ہیں۔