برسلز( حافظ اُنیب راشد ) یورپین یونین کے اکثر رہنماؤں نے اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان جنگ بندی معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہوئے محتاط انداز میں اس امید کا اظہار کیا ہے کہ یہ ایک پائیدار امن کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔ لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب تمام فریقین اس کی شرائط کا احترام کریں۔ اس موقع کی مناسبت سے جاری کردہ پیغامات میں یورپین کمیشن کی صدر ارسلا واندرلین نے جنگ بندی کے معاہدے کو "پائیدار استحکام کی طرف ایک قدم قدم" قرار دیا۔ یورپی پارلیمنٹ کی صدر روبرٹا میٹسولا نے کہا کہ یہ پائیدار امن، امداد میں اضافے، اور مایوسی کو بدلنے والا اور مستقبل کی امید کیلئے ایک اہم لمحہ ہو سکتا ہے۔ سیز فائر معاہدے پر یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کاجا کلاس اس سے بھی زیادہ پرجوش تھیں۔ انہوں نے اسے ایک "اہم، مثبت پیش رفت" قرار دیا۔ جبکہ ان کے پیشرو جوزپ بوریل نے کہا کہ امن معاہدہ "طویل التواء" تھا اور دونوں فریقوں کو "اس کا مکمل احترام کرنا چاہیے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق برسلز میں اعلیٰ ادارہ جاتی کھلاڑیوں میں سے صرف انتونیو کوسٹا (جو کہ ان تمام لیڈروں میں سے واحد سوشلسٹ ہیں) نے اسرائیل-فلسطین تنازعہ کو حل کرنے کے بارے میں یورپی یونین کے سرکاری نقطہ نظر پر زور دیا۔ انہوں نےکہا کہ" یورپی یونین دو ریاستوں کی بنیاد پر ایک جامع، منصفانہ حل اور دیرپا امن کے لیے پرعزم ہے۔ ایک اور اعلیٰ یورپی سوشلسٹ، ہسپانوی وزیرِ اعظم پیڈرو سانچیز نے بھی اسی نکتے پر اصرار کیا۔ فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے کہا کہ "ایک سیاسی حل ضرور آنا چاہیے،" انہوں نے گزشتہ 15ماہ کے تنازعے کو "غیر منصفانہ آزمائش" قرار دیا۔ اس معاہدے کو "اچھی خبر" قرار دیتے ہوئے جرمن چانسلر اولاف شولز نے کہا کہ یرغمالیوں کی باقیات کو بھی باوقار تدفین کے لیے اہل خانہ کے حوالے کیا جانا چاہیے۔" علاوہ ازیں آئرلینڈ کے وزیر اعظم سائمن ہیرس، جو یورپ میں اسرائیل کے سخت ترین ناقدین میں سے ایک ہیں، نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کو "غزہ میں استحکام اور نظم و نسق لانے کے لیے نئی فلسطینی اتھارٹی" کی حمایت کرنی چاہیے۔ دوسری جانب فلسطینی وزیر اعظم محمد مصطفیٰ یورپین کونسل کے صدر انتونیو کوسٹا، بحیرہ روم کے کمشنر سوئیکا اور میٹسولا سے ملاقات کے لیے برسلز میں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ ممکنہ طور پر اپنا پیغام دیں گے کہ اب سے ان کی فلسطینی اتھارٹی کو غزہ میں واحد گورننگ باڈی ہونا چاہیے لیکن ذرائع ابلاغ کے بقول یہ اسرائیلیوں کے لیے ناقابل قبول ہو گا۔