ہائیڈپارک … وجاہت علی خان اس وقت دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک، اپنے متنازع بیانات کی وجہ سے خبروں میں ہیں۔ حالیہ دنوں میں ان کے کچھ بیانات نے خاصی توجہ حاصل کی ہے، مسک نے برطانیہ میں ’’گرومنگ گینگز‘‘ کے معاملے پر برطانوی وزیراعظم سر کیئر سٹارمر کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا، انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس کے زریعے وزیراعظم پر بچوں سے جنسی زیادتیوں کے مجرموں کے جرائم میں شریک ہونے کا سنگین الزام بھی لگایا، اس کے ساتھ ساتھ مسک نے بچوں کے جنسی استحصال کی تحقیقات کے لیے ایک نیشنل انکوائری کا مطالبہ بھی کیا، مسک کے ایسے ہی بعض بیانات میں پاکستان نژاد برطانوی مسلمانوں کو بھی نشانہ بنایا گیا جس پر مختلف حلقوں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ مسک کے بیانات برطانیہ کے کثیر القومی معاشرے میں نسل پرستی کی آگ بھڑکانے کے مترادف ہیں، مسک نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنی مہم جاری رکھی ہوئی ہے، جہاں وہ برطانوی حکومت اور دیگر موضوعات پر متنازع بیانات دیتے رہتے ہیں۔ ان کے بیانات بعض اوقات تضاد رکھتے ہیں اور وہ ان پر یوٹرن بھی لے لیتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی ساکھ پر سوالات اُٹھ رہے ہیں،ان متنازع بیانات کی وجہ سے ایلون مسک کو مختلف حلقوں کی جانب سے تنقید کا سامنا ہے اور ان بیانات کے معاشرتی اثرات پر بحث جاری ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ گزشتہ چند ہفتوں میں ایلون مسک انتہائی دائیں بازو کی شخصیات کے دفاع میں برطانوی وزیر اعظم سمیت یورپی رہنماؤں کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں اور اب وہ ’’ایشین گرومنگ گینگز‘‘ کی اصطلاح کے بارے میں ایک متنازع بحث میں شامل ہوگئے ہیں۔ مسک کے اس بیان کے بعد ایک بھارتی قانون ساز پریانکا چترویدی نے برطانوی وزیر اعظم کی جانب سے بچوں کے جنسی استحصال کے سکینڈلز کے سلسلے میں ’’ایشیائی‘‘ لفظ کے استعمال پر تنقید کی اور کہا کہ ان واقعات میں زیادہ تر پاکستان نژاد مرد ملوث تھے۔ پھر بھارت کی ایک جماعت شیوسینا کی رہنما پریانکا چترویدی نے ’’ایکس‘‘ پر لکھا، ’’میرے ساتھ دہرائیں، یہ ایشین گرومنگ گینگ نہیں بلکہ ’پاکستانی گرومنگ گینگ‘‘ ہیں۔ایلون مسک نے اس کا جواب ’’سچ‘‘ کے ساتھ دیا جس سے اس تبصرے کی حمایت کا اشارہ ملتا ہے اور جہاں سے برطانیہ میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کو تشویش ہوئی کہ ہمیں اس معاملے میں بریکٹ کر دیا گیا ہے۔ برطانوی لیبر پارٹی کی رکن پارلیمینٹ ناز شاہ نے مسک کے بیان کو ’’خطرناک‘‘ قرار دیا ہے اور کہا کہ اس سے اختلافات میں اضافے کا امکان ہے باز شاہ نے مسلم مخالف جذبات بھڑکانے کے لیے بدنام انتہائی دائیں بازو کی کارکن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا میرے لیے یہ خیال کہ ایلون مسک کسی ایسے شخص کی حمایت کر رہے ہیں، جسے ہماری عدالتوں نے ٹامی رابنسن جیسا مجرم قرار دیا ہے۔ ایلون مسک کے ایڈووکیسی گروپوں کا کہنا ہے کہ اس طرح کے بیانیے خاص طور پر برطانیہ جیسے کثیر الثقافتی معاشروں میں ’تقسیم کو بھڑکانے کا خطرہ ہیں۔ ناز شاہ نے اس طرح کی بیان بازی کے وسیع تر مضمرات پر روشنی ڈالتے ہوئے تفرقہ انگیز بیانیوں سے پیدا ہونے والے تشدد کے خطرات کی طرف اشارہ کیا کہ یہ بہت حقیقی ہے، انہوں نے خبردار کیا کہ تقسیم اور نفرت کی آگ بھڑکانے کے سنگین نتائج برآمد ہوتے ہیں، جیسا کہ ہم نے کرائسٹ چرچ کی مسجد حملوں جیسے سانحات میں دیکھا ہے، یہ ایک خطرناک کھیل ہے جو لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالتا ہے۔ دوسری طرف نیٹ ورک آف سکھ آرگنائزیشنز (این ایس او) جیسی تنظیمیں طویل عرصے سے ان مسائل پر بات کرنے میں زیادہ درستی کی وکالت کرتی رہی ہیں، این ایس او نے بار بار اس بات پر زور دیا ہے کہ ایشین گرومنگ گینگ جیسی مبہم اصطلاحات سے ہونے والے نقصانات جو وسیع تر جنوبی ایشیائی برادریوں کو غیر منصفانہ طور پر ملوث کرتے ہیں۔ چنانچہ تشویشناک بات یہ ہے کہ ایلون مسک جیسی بااثر شخصیات اپنے بڑے پلیٹ فارم کے ذریعے نادانستہ طور پر نقصان دہ دقیانوسی تصورات کو بڑھا وا دے سکتی ہیں جو جرائم سے نمٹنے اور متاثرین کی مدد کرنے کی بامعنی کوششوں سے محروم کر دیتی ہیں۔ 2023میں بھی اُس وقت کی بھارت نژاد برطانوی وزیر داخلہ سویلا بریورمین نے بار بار ایسے بیانات دیے کہ ملک میں کم عمر سفید فام لڑکیوں کو سیکس کے لیے استعمال کرنے والے گرومنگ گینگز کے پیچھے اکثریت پاکستان نژاد برطانوی مردوں کی ہے۔ ایلون مسک اور بعض بھارتی حمایتیوں کے الزامات کے برعکس برطانوی ہوم آفس کی طرف سے جاری کردہ پچھلے دس سال کے اعداد و شمار کچھ الگ تصویر پیش کرتے ہیں۔ 2020میں محکمہ وزارت داخلہ نے کم عمر بچیوں کا جنسی استحصال کرنے والے گرومنگ گینگز سے متعلق ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ان جملہ جرائم میں ملوث سب سے بڑا لسانی گروپ وائٹ یا سفید فام مجرموں کا تھا۔ کچھ علاقوں میں جہاں زیادہ سیاہ فام یا ایشیائی لوگ ملوث تھے وہاں باقی ملک کے برعکس انہی لوگوں کی آبادی اکثریت میں تھی۔ اس سے پہلے بھی حکومت کی جانب سے 2015میں جاری محدود علاقوں کے ڈیٹا کے مطابق گرومنگ گینگز میں ملوث افراد میں 42 فیصد سفید فام تھے جبکہ ایشیائی 14فیصد تھے جبکہ 17فیصد سیاہ فام تھے۔ علاوہ ازیں ایک آزادانہ تفتیش میں بھی یہ بات سامنے آئی تھی کہ ایسے کیسز جن میں مجرم سفید فام ہیں اُن کیسز کی کوریج اتنی زیادہ نہیں ہوتی ہے جتنی کہ ایشیائی جرائم والے کیسز کی۔ ایلون مسک کے ان غیر حقیقی بیانات سے مختلف برطانوی تھنک ٹینک یہ خدشہ ظاہر کر رہے کہ اگر حکومت نے فوری اور درست اقدامات نہ کئے تو حالیہ بیانات سے برٹش پاکستانی کمیونٹی کے بارے میں تعصب میں مزید اضافہ اور نسل پرستانہ حملوں کا خدشہ بھی موجود رہے گا۔ علاوہ ازیں حقیقت یہ بھی ہے کہ برطانیہ کے شمالی علاقوں میں رہنے والے اوورسیز پاکستانیوں پر سیکس گرومنگ اور ڈرگ ڈیلنگ کے الزامات نسبتا دیگر علاقوں کے زیادہ لگے ہیں۔