وہ بوکھلائے ہوئے لہجے میں پوچھ رہا تھا یہ کیا ہو گیا؟ یہ کیسے ہوگیا؟ میں نے پوچھا کیا ہوا ہے؟ ایک غیر ملکی نشریاتی ادارے سے وابستہ دوست فون پر کہہ رہا تھا کہ آپ نے تو میرا خانہ خراب کر دیا۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اسکی بوکھلاہٹ اور شکایت کے پیچھے کیا ہے؟ اس نے پوچھا کہ بھئی آپ ٹی وی نہیں دیکھ رہے؟ میں نے اسے بتایا کہ میرے ہاں اخبار اکثر بہت تاخیر سے آتے ہیں آج بھی دس بجے کے قریب آئے تو میں ایک کتاب پڑھ رہا تھا جس کے مصنف باب ووڈوارڈ نے ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکا کیلئے ’’رانگ مین‘‘ اور صدر کے عہدہ کیلئے انتہائی نامناسب قرار دیا تھا۔ کتاب گیارہ بجے مکمل ہوئی تو اخبارات دیکھنے شروع کئے۔ اردو اخبارات کی ہیڈ لائنز وہی تھیں جو کل رات نو بجے کے ٹی وی پر نیوز بلٹن میں تھیں۔ ہاکر کی طرف سے اخبار دیر سے فراہم کرنے کے باعث دلچسپی کم ہو چکی تھی لہٰذا ایک انگریزی اخبار کا ادارتی صفحہ کھول کر پڑھنا شروع کردیا۔دوست نے چلاتے ہوئے پوچھا آپ کے سامنے ٹی وی لگا ہوا ہے یا نہیں؟ اسے بتایا ہاں ہاں ٹی وی لگا ہوا ہے میں سی این این پر کیلیفورنیا میں لگنے والی آگ کی کوریج بھی دیکھ رہا ہوں۔ دوست نے کہا بھائی صاحب کوئی پاکستانی چینل کیوں نہیں دیکھ رہے؟ جواب دیا کہ سب چینلز بتا رہے ہونگے کہ عمران خان کو چودہ سال اور بشریٰ بیگم کو سات سال قید کی سزا سنا دی گئی۔ یہ خبر تو مجھے کئی دن سے پتہ ہے تو اسے بار بار سننے کا کیا فائدہ؟ اب میرا دوست بائولا ہو چکا تھا۔ اس نے دھاڑتے ہوئے کہا کہ جناب آپ کی خبر غلط نکلی۔ احتساب عدالت نے عمران خان کو بری کر دیا ہے۔ یہ سن کر میری ہنسی نکل گئی۔ میں نے کہا کہ جس سزا کو سنائے جانے سے قبل ہی عمران خان کو جیل میں سزا کے متعلق بتا دیا گیا اور اس سے معاملات طے کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ سزا ختم نہیں ہوسکتی۔ میرے دوست نے باقاعدہ چلاتے ہوئے کہا کہ جناب آپ کا یہ دعویٰ میں نے کل روزنامہ جنگ (16جنوری2025ء) میں آپ کے کالم میں پڑھ لیا تھا کہ عمران خان کو دس سے چودہ سال قید کی امید ہے اور پھر وہ اس قید سے سیاسی فائدے اٹھائیں گے۔ آپ کا کالم پڑھ کر میں نے اپنے ہیڈ آفس کو بتا دیا تھا کہ جمعہ کو عمران خان کو سزا ہو جائے گی لیکن اسے تو بری کردیا گیا ہے اور یہ بریکنگ نیوز کم از کم دو ٹی وی چینلز نے نشر کردی ہے کیونکہ میرے سامنے دس چینلز لگے ہوئے ہیں۔ یہ سن کر مجھے دھچکا لگا۔ میں نے چینل بدلنے کیلئے ریموٹ اٹھایا۔ میرا دوست بولے چلا جا رہا تھا۔ بولتے بولتے اچانک رک گیا۔ ارے ارے یہ کیا ہوگیا؟ میں نے پوچھا اب کیا ہوا؟ اس نے کہا عمران خان کو چودہ سال قید کی سزا سنا دی گئی۔ میں نے پوچھا یہ خبر کہاں سے آئی ہے؟ وہ بولا جس ٹی وی چینل نے خان کو بری کرنے کی خبر دی تھی اب وہی چینل خان کو چودہ سال قید کی سزا بریکنگ نیوز کےطور پرپیش کر رہا ہے اور پھر میرا دوست پاگلوں کی طرح ہنسنے لگا۔ میرے پاس اسکی ہنسی میں اپنی ہنسی ملانے کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں تھا۔ جب اسکی ہنسی رک گئی تو پوچھا کہ آپ ہنس کیوں رہے تھے؟ کہنے لگا پہلے تو اپنے آپ پر ہنس رہا تھا پھر پاکستانی میڈیا پر ہنسنے لگا جس نے عدالت کے فیصلے کو مذاق بنا دیا ہے، کبھی عمران خان کو بری کرتا ہے کبھی سزا سنا دیتا ہے۔ میرے دوست نےخود کو پاکستانی میڈیا کی بجائے مغربی میڈیا کا حصہ قرار دیکر ایک تقریر شروع کردی۔ وہ مختلف ٹی وی چینلز کے مالکان کے نام لیکر کہہ رہا تھا کہ جس ملک میں ٹی وی چینلز کے مالکان وزیر بن جائیں اور کچھ چینلز صرف اسٹیٹ ایکٹرز سے نہیں بلکہ نان اسٹیٹ ایکٹرز سے بھی ڈکٹیشن قبول کرنا شروع کردیں اس ملک کے میڈیا پر ہنسوں نہ تو کیا کروں؟ آج کل پاکستانی میڈیا کا دفاع بہت مشکل ہے لہٰذا میں نے دوست سے اجازت لیکر فون بند کردیا۔جس ٹی وی چینل نے عمران خان کو بری کرنے کی خبر دی تھی اب اسی چینل پر سینئر تجزیہ کار کے نام سے ایک سرکاری ٹائوٹ عمران خان کو دی جانیوالی سزا کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا رہا تھا۔ وہ یہ بھول رہا تھا کہ پہلی دفعہ کسی سابق وزیر اعظم کو سزا نہیں سنائی گئی۔ پہلی دفعہ کسی سابق وزیراعظم کو جیل میں بند کرکے آئین و قانون کی بالادستی قائم کرنے کے دعوے نہیں کئے جا رہے۔ جب نواز شریف کو سزا سنا کر نااہل قرار دیا گیا تھا تو اس وقت بھی عدالتی فیصلے کی تعریف کرنیوالے کم نہ تھے۔ جب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر لٹکایا گیا تو اس عدالتی فیصلے کے بعد یوم تشکر منانے والی ایک مذہبی جماعت آج تک دوبارہ پائوں پر کھڑی نہیں ہوسکی۔ افسوس کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے اپنے ساتھ ہونیوالی ناانصافیوں سے سبق نہیں سیکھا اور اب وہ ناانصافی کرنیوالوں کے ہاتھ کا کھلونا بن چکی ہیں۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ تحریک انصاف میں بھی چابی والے کھلونوں کی کوئی کمی نہیں۔ انہی میں سے ایک صاحب نے عمران خان کو جیل میں کہا کہ ’’وہ‘‘ کہتے ہیں شام کے حالات سے سبق سیکھو۔ شام میں فوج کمزور ہوئی تو وہاں خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ عمران خان کو پیغام دیا گیا کہ پاکستان کی خاطر فوج سے محاذ آرائی بند کردیں۔ خان صاحب نے جواب میں کہا کہ فوج ہمارا ادارہ ہے ہم فوج سے نہیں لڑنا چاہتے لیکن ریاست صرف ایک ادارے کے بل بوتے پر نہیں چلتی ریاست کے تمام اداروں کا احتساب کیاجانا چاہئے۔ کاش کہ عمران خان یہ بات اس وقت بھی یاد رکھتے جب وہ خود وزیراعظم تھے اور قومی اسمبلی میں بجٹ منظور کرانے کیلئے اپنی پارٹی کے ناراض ارکان کو آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل فیض کے ذریعہ ہانکتے تھے۔ اچھی بات ہے کہ اب عمران خان کو جیل میں یہ سمجھ آگئی ہے کہ ریاست کو صرف ایک ادارے کی مدد سے نہیں بلکہ آئین کی مدد سے چلانا چاہئے اور آئین میں جس ادارے کی جو حدود متعین ہیں ان حدود کا احترام ہونا چاہئے۔ کسی ادارے کو بھی یہ سمجھ آگئی ہے کہ اگر وہ کمزور ہوگیا تو پاکستان میں شام جیسے حالات پیدا ہو سکتے ہیں تویہ بھی اچھی بات ہے۔ تحریک انصاف کیساتھ مفاہمت کی کوشش بہت اچھی بات ہے۔ اگر اس ادارے کو خلائی مخلوق کہنے والے نواز شریف سے مفاہمت ہو سکتی ہے تو عمران خان سے بھی مفاہمت ہونی چاہئے۔ لیکن عمران یاد رکھیں کسی بھی خفیہ مفاہمت یا ڈیل کی صورت میں ان کا انجام بھی وہی ہوگا جو نواز شریف کا ہوا۔ میں یہ قطعاً نہیں چاہتا کہ عمران خان ہمیشہ جیل میں رہیں۔ وہ مذاکرات کے ذریعہ صرف تحریک انصاف اور اس ملک کے اہل اختیار میں مفاہمت کی کوشش نہ کریں۔ اگر وہ واقعی ایک قومی لیڈر ہیں تو مذاکرات میں صرف تحریک انصاف کا نہیں بلکہ پاکستان کا مقدمہ پیش کریں۔ پاکستان کا مقدمہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ اور عدلیہ کسی کے ہاتھ کا کھلونا بنکر آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہی ہے۔ پاکستان کی سلامتی اور یکجہتی کا ضامن ہمارا ایٹمی پروگرام نہیں بلکہ آئین ہے۔ 1971ء میں پاکستان کے دو لخت ہو جانے کے بعد ایک ادارہ کمزور ہوگیا تو سیاستدانوں نے 1973ء کے آئین پر اتفاق کرکے باقیماندہ پاکستان کو بچا لیا۔ ادارہ دوبارہ مضبوط ہوا تو آئین بار بار ٹوٹنے لگا۔ آج قوم کو اس آئین پر عملدرآمد کیلئے مذاکرات کی ضرورت ہے۔ اگر عمران خان کو نواز شریف بنا دیا گیا تو پھر منظور پشتین اور ماہ رنگ بلوچ کا راستہ صاف ہو جائیگا اسلئے ان کیساتھ بھی مفاہمت ہونی چاہئے۔ آئین کیساتھ مذاق بند نہ ہوا تو پاکستان کو سنبھالنا مشکل ہے۔