اسلام آباد (نیوز ایجنسیاں، جنگ نیوز) سپریم کورٹ نے سنگین کوتاہی پر ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل نذر عباس کو ہٹا کر او ایس ڈی بنادیا ،عدالت عظمیٰ نے رجسٹرار کو معاملہ کا جائزہ لینے کی ہدایت بھی کردی ، سپریم کورٹ میں بینچز کے اختیارات کا کیس مقرر نہ کرنے پر توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دئیے کہ پروسیجر کمیٹی چلتے ہوئے کیسز واپس لے تو عدلیہ کی آزادی کا خاتمہ ہوجائے گا، جہاں محسوس ہو فیصلہ حکومت کے خلاف ہو سکتا ہے تو بینچ سے کیس ہی واپس لے لیا جاتا ہے، ایڈیشنل رجسٹرار کی علالت کے باعث رجسٹرار سپریم کورٹ عدالت کے سامنے پیش ہوئے،عدالت نے استفسار کیا بتائیں عدالتی حکم کے باوجود کیس مقرر کیوں نہ ہوا؟ رجسٹرار سپریم کورٹ نے موقف اختیار کیا کہ یہ کیس آئینی بینچ کا تھا، غلطی سے ریگولربینچ میں لگ گیا تھا، جسٹس منصور نے استفسار کیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا اس معاملے پر اجلاس کیسے ہوا؟ کیا کمیٹی نے خود اجلاس بلایا یا آپ نے درخواست کی؟رجسٹرار نے جواب دیا کہ ہم نے کمیٹی کو خط لکھا تھا،جسٹس منصور نے کہا کہ جب جوڈیشل آرڈر موجود تھا تو نوٹ کیوں لکھا گیا؟، سماعت کے دوران جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیئے کہ ٹیکس کے کیس میں کونسا آئینی ترمیم کا جائزہ لیا جانا تھا جو یہ مقدمہ واپس لے لیا گیا،اس موقع پر بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کمیٹی یا ریسرچ افسر صرف نوٹ لکھ سکتا ہے کہ مقدمہ کس بینچ کو جانا چاہیے، کیس آئینی بینچ میں سنا جانے والا ہے یا نہیں، تعین کرنا عدالت کا کام ہے، ذرائع کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی سمیت تین ججز نے بینچز اختیارات کا کیس مقرر نہ ہونے کے معاملے پر چیف جسٹس یحیٰی آفریدی اور جسٹس امین الدین خان کو خط بھی لکھ دیا ، ذرائع کے مطابق جسٹس منصور نے خط میں لکھا کہ کمیٹی پہلے والا بینچ تشکیل دے کر 20 جنوری کو سماعت فکس کرسکتی تھی، کیس فکس نہ کرنا جوڈیشل آرڈر کو نہ ماننے کے مترادف ہے، عدالت نے کیس کی سماعت (آج)بدھ تک کے لئے ملتوی کردی ، دریں اثناء سپریم کورٹ میں جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں زیر سماعت ایڈیشنل رجسٹرار کیخلاف توہین عدالت کیس کو ڈی لسٹ کردیا گیا ہے۔سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس سے ایڈیشنل رجسٹرار توہین عدالت کیس کے ڈی لسٹنگ کا نوٹس جاری کردیا گیا ہے۔رجسٹرار آفس کی جانب سے ڈی لسٹنگ کے بعد آج سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت نہیں ہو سکے گی۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے بینچز کے اختیارات کا کیس مقرر نہ کرنے پر توہین عدالت کیس کی سماعت کی، رجسٹرار سپریم کورٹ عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔عدالت نے استفسار کیا بتائیں عدالتی حکم کے باوجود کیس مقرر کیوں نہ ہوا؟ رجسٹرار سپریم کورٹ نے موقف اختیار کیا کہ یہ کیس آئینی بینچ کا تھا، غلطی سے ریگولربینچ میں لگ گیا تھا۔جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیے اگر یہ غلطی تھی تو عرصے سے جاری تھی، اب ادراک کیسے ہوا؟ معذرت کے ساتھ غلطی صرف اس بینچ میں مجھے شامل کرنا تھی، میں اس کیس کو ہائی کورٹ میں سن چکا تھا۔جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا اس معاملے پر اجلاس کیسے ہوا؟ کیا کمیٹی نے خود اجلاس بلایا یا آپ نے درخواست کی؟رجسٹرار سپریم کورٹ کی جانب سے موقف اپنایا گیا کہ ہم نے کمیٹی کو نوٹ لکھا تھا، جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا جب جوڈیشل آرڈر موجود تھا تو نوٹ کیوں لکھا گیا؟ ہمارا آرڈر بہت واضح تھا کہ کیس کس بینچ میں لگنا ہے۔عدالت نے ریمارکس دیے ہمیں وہ نوٹ دکھائیں جو آپ نے کمیٹی کو بھیجا جس پر رجسٹرار نے کمیٹی کو بھیجا گیا نوٹ پیش کردیا۔جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے اس نوٹ میں غلطی کا ادراک تو نہیں کیا گیا، اس میں آپ لکھ رہے ہیں 16 جنوری کو ایک آرڈر جاری ہوا ہے، آپ اس آرڈر کی بنیاد پر نیا بینچ بنانے کا کہہ رہے ہیں، آرڈر میں تو ہم نے بتایا تھا کہ کیس کس بینچ میں لگنا ہے۔رجسٹرار نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی نے کیس آئینی بینچ کمیٹی کو بھجوایا، آئینی بینچز کی کمیٹی نے آئینی ترمیم سے متعلقہ مقدمات 27 جنوری کو مقرر کئے، ترمیم کے بعد جائزہ لیا تھا کہ کون سے مقدمات بینچ میں مقرر ہو سکتے ہیں، کون سے نہیں۔