• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موسمِ گرما کی تعطیلات: تعمیری، بہت خوش گوار بھی ہوسکتی ہیں

صبا احمد

عصرِحاضر میں موسمِ گرما کی تعطیلات والدین کے لیے کسی امتحان سے کم نہیں، خصوصاً مائیں تو اِن دو ماہ کی چُھٹیوں میں گویا ہائپرٹینشن کی مریضائیں بن جاتی ہیں۔ گرچہ تعطیلات کے دوران بچّوں کو مصروف و مشغول رکھنے کے لیے مختلف نجی اسکولز کی جانب سے سمر کیمپس کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے لیکن یہ عموماً پیسا کمانے کا ذریعہ اور والدین پر اضافی بوجھ ہی ثابت ہوتے ہیں، جب کہ ہوش رُبا منہگائی کے سبب والدین اپنے بچّوں کو گھمانے پھرانے یا اپنے رشتے داروں سے ملوانے دوسرے شہر لےجانےکی سکت بھی نہیں رکھتے۔

پھر کھیلوں کےمیدان نہ ہونےاور غیرنصابی کُتب سے شغف نہ رکھنے کے سبب بیش تر بچے ہمہ وقت اپنے کمروں میں بیٹھے موبائل فونز، ٹیبلٹس یا کمپیوٹرز پر غیرضروری، غیرمفید مواد دیکھنے ہی میں مصروف نظر آتے ہیں۔

نیز، چُھٹیوں کے دوران چوں کہ بچوں کے سونے، جاگنے اور کھانے پینے کا کوئی وقت مقرر نہیں ہوتا، تو نتیجتاً، ماؤں کو دن میں متعدد مرتبہ کھانے پینے کی مختلف اشیاء تیار کرنی پڑتی ہیں اور یوں اُن کا سارا دن کچن ہی کی نذر ہوجاتا ہے۔

اس کے برعکس ماضی میں موسمِ گرما کی تعطیلات نہ صرف والدین کے لیے راحت کا سامان لاتی تھیں، بلکہ بچّوں کے لیے بھی دل چسپ، تعمیری اور صحت مندانہ سرگرمیوں کا باعث ہوتی تھیں۔ ہمارے بچپن میں صرف ایک چینل، پی ٹی وی ہوا کرتا تھا، جس پر کارٹونز اور بچّوں کے ڈرامے بھی نشر کیے جاتے تھے، جنہیں ہم بصد شوق دیکھا کرتے تھے۔ والدین ہاکر کو، چُھٹیوں میں اخبار کے ساتھ بچّوں کے رسالے بھی دینےکی خصوصی تاکید کرتے تھے اور وہ رسائل ہم خُوب ذوق و شوق سے پڑھتے بھی تھے۔

اِسی طرح ہمارے اسکول کے قریب واقع لائبریری میں سیل لگتی تھی، جہاں سے نصف یا30فی صد کم قیمت پرمختلف کتابیں، رسالے ملتے تھے، جنہیں ہم اپنی پاکٹ منی سے خرید کر پڑھتے تھے۔ اُن دنوں اشتیاق احمد کی بچّوں کے لیے تحریر کی گئی کہانیاں اورجاسوسی کہانیوں پر مشتمل عمران سیریز بہت مقبول تھیں۔ اس کے علاوہ ان رسالوں میں چینی اور انگریزی زبان کی کہانیوں کے اُردو تراجم بھی شایع ہوتے تھے۔

تب موسمِ گرما کی تعطیلات کے دوران بھی والدین یا دادا، دادی بچّوں کو نمازِ فجر کے لیے جگاتے تھے۔ لڑکے مسجد میں، جب کہ لڑکیاں گھروں میں اپنی دادی یا امی کے ساتھ نماز ادا کرتیں اور اُس کے بعد قرآنِ پاک کا سبق پڑھا جاتا تھا۔ ہم لڑکیاں اپنے گھر کے قریب واقع مسجد کے امام صاحب کی والدہ کے پاس، جنہیں ہم سب ’’اماں جی‘‘ کہتے تھے، قرآنِ پاک کا سبق پڑھنے جاتی تھیں۔ سبق سے فارغ ہو کر مائیک پر نماز اور چھے کلموں کی دہرائی ہوتی اور بچّے حمد و نعت بھی سُناتے۔ بعد ازاں، لڑکیاں امّاں جی کے گھر کا کام کاج کرتیں۔

کوئی لڑکی جھاڑو دیتی، کوئی آٹا گوندھتی، کوئی سبزی بناتی، کوئی برتن دھوتی اور کوئی مسالا پیستی اور روزانہ لڑکیوں کی ڈیوٹیاں بدلتی رہتی تھیں۔ اِس طرح بچیاں قرآن کی تعلیم کے ساتھ گھر گرہستی بھی سیکھ لیتیں۔ہم ساڑھےآٹھ بجے تک گھرآکر ناشتا کرتے اور پھر مستنصر حسین تارڑ(چاچا جی) کا مارننگ شو دیکھا جاتا، جس میں ہم بچّوں کے لیے کوئی نہ کوئی سیگمنٹ ضرور ہوتا۔ ہم سارے بہن بھائی کچھ دیرمل بیٹھ کر باتیں کرتے۔ 

اُس کے بعد لڑکیاں گھر کے کاموں میں اپنی ماؤں کا ہاتھ بٹاتیں، جب کہ لڑکے بازار سے سودا سلف لاکردیتے۔ امّی دوپہر کے کھانے کی تیاری میں مصروف ہوتیں، تو ہم اسکول سے مِلا چُھٹیوں کا کام کرتے۔ ایک، دو بجے تک کھانے سے فارغ ہونے کے بعد رسالے پڑھتے اور پھر سوجاتے۔ پھر سب عصر کی نماز کے لیے اُٹھتے اور شام کے وقت لڑکیاں گلی میں، جب کہ لڑکے گراؤنڈ میں کھیلنےجاتے۔ مغرب کا وقت ہونے سے پہلے سب گھروں میں واپس آجاتے اور پھر کارٹون یا بچّوں کے ڈرامے دیکھتے۔ 

رات کا کھانا کھانے کے بعد امّی یا ابّو ہم سے سبق اور دادی جان کلمے سُنتیں اور پھر ہم باتیں کرتے، کہانیاں سُنتے سُناتے نیند کی وادی میں کھو جاتے۔ پھر موسمِ گرما کی تعطیلات کے دوران کبھی ہم دوسرے شہر اپنی نانی کے گھر جاتے یا کبھی ہماری خالہ اپنے بچّوں کے ساتھ ہمارے یہاں آجاتیں اوراس دوران ہم سب مختلف تفریحی مقامات کی سیر کے لیےجاتے۔ 

بڑی بڑی بالٹیوں میں برف ڈال کر ٹھنڈے کیے گئے آموں کے علاوہ کالے نمک کے ساتھ جامن شوق سے کھاتے، جب کہ ناشتے میں لسّی یا دہی کا استعمال ضرور کیاجاتا۔ تمام بچّے خُوب کھیلتے کُودتے اور ایک دوسرے کے ساتھ نہایت محبّت سے پیش آتے۔ اسی طرح ہنستے کھیلتے اگست کا مہینہ سر پہ آجاتا اورہم اسکول جانے کی تیاریاں شروع کردیتے۔

صرف ایک ہماری بات نہیں، کم و بیش ہر دوسرے گھر کے یہی معمولات ہوتے تھے۔ تو اگر آج کے والدین بھی تھوڑی سی محنت کرکے موسمِ گرما کی تعطیلات کے دوران اپنے بچّوں کے معمولات مذکورہ بالا روٹین پراستوار کرنے کی کوشش کریں، تو اِن چُھٹیوں کو نہ صرف خوش گوار بلکہ بہت تعمیری بھی بنایا جا سکتا ہے۔

ناقابلِ اشاعت نگارشات اور اُن کے تخلیق کار برائے صفحہ’’پیارا گھر‘‘

موبائل فون (شائستہ عابد، لاہور) رمضان کی تیاری (ثناء توفیق، کراچی) جامن کے حیرت انگیز فوائد (قاضی جمشید عالم صدیقی، لاہور)بُھٹّا اور اس کے فوائد(مبشرہ خالد،کراچی)، لبّیک یا عیدی، آؤ فلاح کی طرف، پیرویٔ رسولؐ(مصباح طیّب، سرگودھا)آملوک، جاپانی پھل (ڈاکٹرشاہ جہاں کھتری، لکھنئو سوسائٹی، کراچی)خوش گوار، پُرسکون زندگی(ق۔ا۔ظ، گلشنِ اقبال ، کراچی)رویّے(نرجس مختار، خیرپور میرس ، سندھ)اخلاقی تربیت، وقت کی ضرورت(شیما فاطمہ، کورنگی،کراچی)زندگی میں توازن کی اہمیت(ایم شمیم نوید، گلشنِ اقبال، کراچی)شیر خواروں کے لیے ہدایات(محمد صفدر خان ساغر، راہوالی، گوجرانولہ)۔