تحریر: نرجس ملک
ماڈل: انمول راجپوت
ملبوسات: Garnet
آرائش: ماہ روز بیوٹی پارلر
کوآرڈی نیشن: عابد بیگ
عکّاسی: ایم۔ کاشف
لے آؤٹ: نوید رشید
کہیں لکھا، پڑھا کہ ’’زندگی کے لیے طویل المدتی پلاننگ نہ کریں کہ زندگی نے خُود بھی آپ کے لیے کچھ منصوبے ترتیب دے رکھے ہوتے ہیں اور یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ عموماً آپ کی زندگی کے قیمتی، خُوب صُورت ترین لمحات Unplanned (کسی منصوبہ بندی کے بغیر) ہی ہوتے ہیں۔‘‘ اِسی طرح ایک اور جگہ پڑھا کہ ’’خوشی و مسرت کا انحصار کبھی اِس بات پر نہیں ہوسکتا کہ آپ کتنے امیر و کبیر ہیں اور آپ کی دسترس میں کیا کیا کچھ ہے۔
فرحت و شادمانی کا تعلق ہمیشہ آپ کے تصورات و خیالات، جذبات و احساسات سے ہوتا ہے۔‘‘ تو طے یہ پایا کہ طویل منصوبہ بندی، لمبے چوڑے پلانز، اہداف کا تعیّن، مال و دولت کے انبار اور طاقت و اختیار کبھی بھی اطمینانِ قلب، ذہنی و روحانی سُکون، دائمی راحت و آسودگی کا باعث نہیں ہوسکتے۔
چھوٹا سا چہار حرفی لفظ ’’خوشی‘‘ عموماً چھوٹی چھوٹی حکایات، ننّھی ننّھی خواہشات، معصوم تمنائوں، نوخیز آرزوؤں، بے ضرر باتوں، رُوپہلے سپنوں، سجیلے، رنگ رنگیلے ارمانوں، بے ساختہ حرکتوں، برجستہ جوابوں، بے لوث محبّتوں، نت نئی شرارتوں، بے ارادہ میل ملاقاتوں اور بے موسم لطف و کرم کی بارشوں ہی کا مرہونِ منّت ٹھہرتا ہے۔
سچ ہے کہ ’’لمحوں میں جینا ہی درحقیقت زندگی ہے۔‘‘ اور زندگی، اَن گنت رنگوں کا مجموعہ ہے۔ سو، ہمیں ہمیشہ وہی رنگ چُننے چاہئیں، جن سے ہم پیار کرتے ہیں، جو ہماری آنکھوں میں بستے، ہمارے دل کے بے حد قریب ہیں اور اِس انتخاب کے ضمن میں بھی سچائی و ایمان داری کا دامان تھامے رکھنا چاہیے، کیوں کہ بعد ازاں، یہی انتخاب، ہماری زندگی کے انگ انگ سے جھلکتا ہے۔ ایسے ہی تو لوگ ظاہری وضع قطع، پوشاک و ملبوسات کو شخصیت کا آئینہ دار نہیں مانتے۔
’’پہناوا‘‘ کسی بھی انسان کا پہلا تعارف ہوتا ہے اور یہی تعارف آگے چل کر تعریف و توصیف یا تنقیص و تحقیر پر منتج ہوتا ہے۔ یوں ہی تو ٹیکسائل انڈسٹری، فیشن نگری دن دُونی رات چوگنی ترقی نہیں کر رہی۔ اِس ضمن میں اگر ’’بھیڑ چال‘‘ کا تصوّر عام ہے کہ اِدھر ایک مخصوص انداز، اسٹائل متعارف ہوا، اُدھر، ہر خاص و عام کی دسترس تک جا پہنچا، اُس کا مَن پسند ٹھہرا (جس کی ایک بہت بڑی وجہ دنیا کا’’گلوبل ویلیج‘‘ کااسٹیٹس بھی ہے)، تو دوسری جانب ’’سیگنیچر لُک‘‘ کا نظریہ بھی خاصا رواج پا چُکا ہے۔
خصوصاً اشرافیہ پسند نہیں کرتی کہ اُن کا مخصوص انداز ہر جگہ کاپی، پیسٹ ہوتا رہے۔ ایسے بےشمار انفرادیت پسند، نخوت پرست موجود ہیں، جو یہ برداشت ہی نہیں کرسکتے کہ اُن کا مخصوص یا منفرد اسٹائل کوئی دوسرا بھی اپنائے۔ البتہ متوسّط یا نچلا متوسّط طبقہ ایک سا نظر آنے میں کچھ خاص قباحت محسوس نہیں کرتا۔ جیسا کہ پچھلے کچھ عرصے سے ’’فرشی شلوار‘‘ نےایک انت مچا رکھا ہے۔ چھے ماہ، سال بھر کی بچیوں تک کو پہنائی جارہی ہے۔
شوبز سے وابستہ مَردوں تک نے اُس پر ہاتھ صاف کیے، تو عام گھریلو عورتوں سے بڑے بڑے عہدوں پر فائز خواتین کی وارڈروبز میں اِس انداز کے ایک دو پہناووں کا اضافہ تو ضرور ہی ہوا۔ حالاں کہ یہ طے شدہ حقیقت ہے کہ ’’ہر رنگ و انداز، ہر ایک کے لیے ہرگز نہیں ہوتا۔‘‘ پوشاک کے انتخاب میں اگر قد کاٹھ، رنگ رُوپ، نین نقش اور خصوصاً جسامت کا خیال نہ رکھا جائے، تو عموماً پہلا تعارف، تعریف کی بجائے، سخت تضحیک کا باعث بھی بن جاتا ہے۔
اور پھر ملبوس پر ’’بڈھی گھوڑی، لال لگام‘‘، ’’ ثابت نہیں کان، بالیوں کا ارمان‘‘، ’’ منہ نہ متّھا، جِن پہاڑوں لتھا‘‘، ’’کوّا چلا ہنس کی چال، اپنی بھی بھول گیا‘‘، ’’اونچی دکان، پھیکا پکوان‘‘، ’’خاک نہ دھول، بکائن کے پھول‘‘ ’’بندر کیا جانے ادرک کا سواد‘‘ اور ’’پا جائے ہر کوئی، ٹمکا جائے کوئی کوئی‘‘ یعنی ’’لباس پہنتا تو ہر کوئی ہے، لیکن جچتا کسی کسی پرہے‘‘ جیسی طنزیہ ضرب الامثال یا جملے بھی کسے جاتے ہیں۔
ہماری تو روزِ اوّل سے یہی کوشش ہے کہ جس قدر ممکن ہو، خوش پوشاکی، خوش ذوقی اور جامہ زیبی کی تعلیم، عملی صُورت میں عام کی جائے اور اس کے لیے ہر ہفتے ایک یک سر جداگانہ، خُوب حسین و دل کش سی بزم سجائے چلے آتے ہیں۔ جیسا کہ آج کی یہ محفل، جو میچنگ سیپریٹس سے لے کر دل نشین ایمبرائڈرڈ لانگ فراکس تک کے دل رُبا سے رنگ و انداز سے مزیّن ہے۔
ذرا دیکھیے، لان کا لائٹ بلیو سے شیڈ میں سادہ سا پرنٹڈ پہناوا کیسا پیارا معلوم ہو رہا ہے۔ اسکن رنگ میں بلاک پرنٹڈ دوپٹے کی ندرت لیے میکسی اسٹائل لانگ فراک کا جلوہ ہے، تو لائٹ میجنٹا رنگ میں جوائننگ لیس کی آرائش کے ساتھ بلاک پرنٹ سے آراستہ خُوب صُورت فراک کی جاذبیت کے بھی کیا ہی کہنے۔
پستئی رنگ پہناوے پر نفیس ایمبرائڈری غضب ڈھا رہی ہے، تو سدا بہار رنگ، جیٹ بلیک پر کڑھت اور بلاک پرنٹگ کی ہم آہنگی نے تو لباس کا حُسن گویا سہہ آتشہ کردیا ہے۔ ایسی رنگین ودل نشین سی بزم ہو، تو دل تو آپ ہی آپ گنگنانے لگتا ہے کہ ؎ دُور تک نگاہوں میں حُسن مسکراتا ہے..... وہ اِدھر سے گزرے ہیں، راستہ بتاتا ہے..... آنسوئوں پر رہ رہ کر قہقہے لگاتا ہے..... یوں بھی تیرا دیوانہ نازِ غم اُٹھاتا ہے..... سوچنا ابھی کیسا عشق کے سمندر میں..... کون پار ہوتا ہے، کون ڈوب جاتا ہے۔
لمبی لمبی منصوبہ بندیوں کے لیے دیگر کئی معاملاتِ زندگی موجود ہیں، ہمارے انتخاب سے کچھ بھی بےجھجک، فٹافٹ ہی اُٹھا لیا کریں۔ ہاں، اپنا ڈیل ڈول ضرور ملحوظِ خاطر رکھیں، لیکن چھوٹی چھوٹی چیزوں سے بڑی بڑی خوشیاں کشید کرنا کبھی نہ چھوڑیں۔