فوزیہ اختر ردا
سردی کا جب موسم آئے
کانپے تن من دانت بجائے
موزے، جیکٹ، ٹوپی لائے
سوئیٹر، مفلر بھی گرمائے
جسم و جان پڑے ہیں ٹھنڈے
گرما گرم ہیں اُبلے انڈے
گاجر کا حلوہ بھی آیا
سردی نے کیا جی للچایا
کُہرے سے ہیں رستے دھندلے
ریل رُکی ہے رستے بدلے
سیر سپاٹہ سب کو بھائے
سردی میں دل جھوم سا جائے
آگ کو گھیرے بیٹھے ہیں سب
ہاتھ کو تاپیں ، لب پر یا رب
گوبھی، شلجم، سیم بھی کھاؤ
مٹر بھگوؤ، ساگ بناؤ
گرما گرم تم سُوپ بھی پی لو
کبھی نہ بچّو صحت کو بھُولو
بادام و اخروٹ بھی کھاؤ
ڈرائ فروٹس سے جی نہ چراؤ
سردی کو یوں دور بھگاؤ
کافی پیو اور میوہ کھاؤ
گپ شپ کی محفل جو جمائی
سب نے مل کر اوڑھی رضائی