تفہیم المسائل
رسول اللّٰہ ﷺ کا فرمان ہے: ترجمہ: ’’: میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر میرے حوض پر ہے، (صحیح بخاری :1888)‘‘۔ ہر مسلمان، جسے مسجدِ نبوی میں نماز پڑھنے کا شرف حاصل ہو، اس کی خواہش ہوتی ہے کہ چند لمحے ریاض الجنہ میں بیٹھنے، نماز پڑھنے اور تلاوت واَذکار ودرود پڑھنے کا شرف نصیب ہوجائے، کیونکہ یہ جنت کا ٹکڑا ہے اور ہمارا ایمان ہے کہ یقیناًیہ جنت میں جائے گا اور شاید یہاں بیٹھنے والوں کو اِس کی برکت سے جنت نصیب ہوجائے۔
امام احمد رضا قادری نے الملفوظ میں لکھا ہے: ’’ کعبۂ مُعظمہ اور تمام مساجد جنت میں جائیں گی اور روضۂ نبوی ﷺ کعبۂ مُعظمہ سے افضل ہے، تو روضۂ رسول بدرجۂ اَولیٰ جنت میں جائے گا اور تمام انبیائے کرامؑ کی تُربتیں (یعنی قبریں ) بھی جنت میں جائیں گی، (الملفوظ،حصہ چہارم،ص:528،ملخصاً)۔صحابۂ کرام ؓ تو رسول اللہ ﷺکے زیرِ سایہ اورآپ کی معیت میں مدینہ منورہ میں رہتے تھے اور اس کے باوجود جنت کے طلب گار ہوتے تھے۔
حدیث مبارک میں ہے :’’ غزوۂ اُحُد کے موقع پرایک شخص نے( جو میدانِ جنگ سے کچھ دیر کے لیے اپنی توانائی کو مجتمع کرنے آیا، وہ چند کھجوریں ہاتھ میں لے کر کھا رہا تھا کہ اس) نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : ’’(یا رسول اللہﷺ!) مجھے بتایئے کہ اگر میں (میدانِ جنگ میں لڑتے لڑتے)شہید ہوجاؤں تو میرا ٹھکانا کہاں ہوگا؟‘‘۔
آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جنت میں‘‘، تو (یہ سن کر)اس نے اپنے ہاتھ سے کھجوریں رکھ دیں (اورمیدانِ جنگ میں کود پڑا) اور لڑتے لڑتے شہید ہوگیا، (صحیح بخاری: 3820)‘‘۔ اس حدیث سے معلوم ہواکہ جب صحابیِ رسول کو رسالت مآب ﷺ کی زبانِ مبارک سے شہادت کی صورت میں جنت ملنے کا یقین ہوگیا تو اس نے مدینے میں رہتے ہوئے اتنی دیر بھی جنت سے دور رہنا پسند نہ کیا کہ وہ آرام سے چند کھجوریں کھاکر میدانِ جنگ میں کودتا، بلکہ جنت کے حصول کے اشتیاق کا اس پر اتنا غلبہ ہواکہ فی الفور میدانِ جنگ میں کود پڑا اور شہادت کا اعزاز پاکرجنت میں جاپہنچا۔
مدینۂ منورہ سے اظہارِ محبت کے سوانداز اختیار کیے جاسکتے ہیں، لیکن کیا اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کا جنت سے تقابل کیا جائے اور جنت کو اہلِ محبت وعقیدت کی نظر میں حقیر اور کم ترقرار دیاجائے، یہ شِعاران لوگوں نے عام کیا، جنہوں نے محبت وعشقِ رسول اللہ ﷺ کو مشن کی بجائے معاش بنادیا اور پھر اس طرح ابتذال پر مبنی اشعار ترتیب دیئے گئے، تاکہ عوام کی عقیدت کو اپنے مقاصد کے لیے ابھارا جائے۔
حالانکہ اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جنت کے حصول کی تلقین وترغیب دی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ اور اپنے رب کی بخشش اور اُس جنت کی طرف جلدی کرو، جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمینوں کے برابر ہے، اور وہ ایسے پرہیزگاروں کے لیے تیار کی گئی ہے، (سورۂ آل عمران:133)‘‘۔
مذکورہ بالا شعر پرکفر کا اطلاق تو نہیں ہوتا، لیکن تقابل کا ایساانداز کہ جس سے جنت کی بے توقیری ظاہر ہویا اہمیت کم ظاہر ہو، انتہائی ناپسندیدہ ہے اور اِس شِعار کو ترک کرنا چاہیے۔ کلمہ پڑھ کر ایمان تازہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ علامہ ابن عابدین شامی ’’تبیین المحارِم‘‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں:
ترجمہ:’’(وہ اُمور جن کا جاننا ضروری ہے) حرمت اور کُفر کا سبب بننے والے کلمات ہیں اور میری جان کی قسم ! اس زمانے میں یہ مسئلہ نہایت اہم ہے، کیونکہ آپ عوام کو غفلت (اورنادانی ) میں اکثر کفریہ کلمات کہتے ہوئے سنتے ہیں اور احتیاط اِسی میں ہے کہ( دینی مسائل سے ) نابلد شخص ہر روز تجدیدِ ایمان کرے اور وقتاً فوقتاً تجدیدِ نکاح کرے، کیونکہ عورتوں سے بھی اکثر (نادانی میں)اس طرح کے کلمات سرزَد ہوتے ہیں، (ردالمحتار علیٰ الدرالمختار، جلد1، ص:122ملخصاً)‘‘۔
شاید اِسی لیے برّصغیر پاک و ہند کے بعض علاقوں میں علماء نے نکاح کے موقع پر کلمے پڑھانے کا شِعار رائج کیا کہ مبادا کبھی بے خیالی اور نادانی میں کوئی کفریہ کلمہ سر زد ہوگیا ہو تو تجدیدِ ایمان ہوجائے۔