تفہیم المسائل
سوال: پاکستان میں پراپرٹی کی خریدوفروخت کے لیے بلدیہ کے مختلف کم از کم ریٹ فکس کئے گئے ہیں، اب اگر میں پراپرٹی سیل کرتا ہوں اور بلدیہ کے ریٹ سے زیادہ میں فروخت کرتا ہوں اور کاغذات میں بلدیہ کا ریٹ ہی لکھتا ہوں، تا کہ گورنمنٹ ٹیکس کم سے کم لگے، تو کیا ایسا کرنا جائز ہے؟(عبدالرؤف)
جواب: صدقاتِ واجبہ ( زکوٰۃ، فطرہ، کفارات ) کے مصارف اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان فرما دیے ہیں، اسلامی ریاست میں جہاں صدقاتِ واجبہ کی وصولی اور ا س کی منصفانہ وشفاف تقسیم کا نظام موجود ہے، تو جن مدات میں زکوٰۃ خرچ کرنے کا حکم اللّٰہ تعالیٰ نے دیا ہے، وہاں زکوٰۃ صرف کی جاسکتی ہے، البتہ ریاست اپنے اخراجات کے لیے مناسب ٹیکس لے سکتی ہے۔
حدیث پاک میں ہے: ترجمہ:’’ بے شک (تمہارے ) مال میں زکوٰۃ کے علاوہ (اور) بھی حق ہیں، (سُنن ترمذی:660)‘‘۔حکومت نے اگر مختلف علاقوں میں جائیداد کی خرید وفروخت کے لیے یکساں کیپیٹل ویلیو ٹیکس مقرر کر رکھے ہیں، تو اتنا ٹیکس دینا ازروئے قانون لازم ہے اور قانون کی پابندی کرنی چاہیے۔
اس سے وابستہ مجاز اداروں کو چاہیے کہ ٹیکس کی رقم سیل ڈیڈ کی رجسٹری پر درج رقم کی شرح سے وصول نہ کریں، بلکہ یہ طے کرلیں کہ فلاں علاقے میں 1000گز کے پلاٹ کا اتنا ٹیکس ہوگا، 400گز کا اتنا ٹیکس ہوگا، پلاٹ یا مکان کی حقیقی قیمت کا تعین بائع اور مشتری کی مرضی پر چھوڑ دے تاکہ لوگوں کو جھوٹ نہ بولنا پڑے۔
حکومت حقیقی قیمت کو ٹیکس کی شرح سے منسلک نہ کرے اور عوام کو ابتلا میں نہ ڈالے کہ وہ جھوٹ لکھنے پر مجبور ہوں، یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی شخص کسی خاص سبب سے یا تعلق کی بناء پر کسی کو پلاٹ سرکاری شرح سے بھی کم قیمت پر فروخت کرے، اگرچہ ایسی مثالیں نادر ہوتی ہیں، لیکن دائرۂ امکان میں تو ہیں۔ بحیثیت مفتی احکامِ شریعت بیان کرنا ہمارا دینی فریضہ ہے، شریعت کی رُوسے کوئی شخص جھوٹ بولنے اور لکھنے کی اجازت نہیں دے سکتا ۔( واللہ اعلم بالصواب )