موجودہ وفاقی حکومت وزیراعظم محمد شہباز شریف کی قیادت میں دہشت گردی اور سیاسی انتشار کے دشوار چیلنجوں کے باوجود ملک کو معاشی بحران سے نجات دلاکر ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کی جس جاں فشانی کیساتھ کوشش کررہی ہے، اسکے امید افزا نتائج تیزی سے منظر عام پر آ رہے ہیں۔ڈیرہ غازی خان میں گزشتہ روز عوامی جلسے سے خطاب میں وزیراعظم نے قومی ترقی کیلئے اپنے عزم کا پرجوش اظہار کیا۔ ڈیرہ غازی خان میں کینسر اسپتال اور راجن پور میں یونیورسٹی کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے انہوں نے دعویٰ کیا کہ ترقی پاکستان کا مقدر بن چکی ہے ۔ تاہم انہوں نے قوم کو متنبہ بھی کیا کہ ترقی و خوشحالی کیلئے دہشت گردی اور سیاسی انتشار کا خاتمہ ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہڑتالوں اور دھرنوں سے ملک کو نقصان پہنچایا گیا،اسلام آباد پر چڑھائیاں کی جاتی رہیں،خوارج بھی پاکستان کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں لیکن ہم پاکستان کو عظیم ملک بنانے کی خاطر دن رات محنت کر رہے ہیں۔وفاقی حکومت ترقیاتی منصوبوں کا وسیع نیٹ ورک پھیلا کر جنوبی پنجاب جیسے پسماندہ علاقوں کیساتھ ساتھ ملک کے تمام علاقوں کی یکساں ترقی و خوشحالی کیلئے پرعزم ہے۔ ان کوششوں کے نتیجے میں مہنگائی میں اضافے کی رفتار گیارہ ماہ میں چالیس فی صد سے کم ہوکر ڈھائی فی صد پر آگئی ہے اور اسٹیٹ بینک کے سود کی شرح 22 فی صد سے گھٹ کر 12فی صد ہوچکی ہے جس کی وجہ سے نجی شعبے کی سرمایہ کاری نمایاں طور پر بڑھی ہے۔ وزیر اعظم کے اس اظہار خیال کو کسی بھی انصاف پسند شخص کیلئے بے بنیاد قرار دینا ممکن نہیں۔ عسکری قیادت کے تعاون سے موجودہ حکومت نے معاشی محاذ پر بہت کم وقت میں جو کامیابیاں حاصل کی ہیں،ان کا اعتراف عالمی سطح پر کیا جارہا ہے۔ ورلڈ بینک کی جانب سے پاکستان میں چالیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا حالیہ فیصلہ پاکستان کے معاشی مستقبل پر دنیا کے اعتماد کا ناقابل تردید ثبوت ہے۔ٹیکس نیٹ بڑھانے کی جو کوششیں پچھلی پون صدی میں ناکام رہی تھیں، اس دور میں نمایاں کامیابی سے ہمکنار ہورہی ہیں۔اس کا ایک نہایت خوش آئند مظاہرہ 26ویں آئینی ترمیم کے تحت بننے والے سندھ ہائی کورٹ کے آئینی بنچ کے ونڈ فال ٹیکس برقرار رکھنے کے فیصلے کے بعد ملک کے16 بڑے بینکوں سے ایک ہی دن میں23ارب روپے کی واجب الادا ٹیکسوں کی وصولی کی شکل میں ہوا ہے۔ذرائع کے مطابق وزیر اعظم کی قیادت میں اٹارنی جنرل پاکستان، چیئرمین ایف بی آر اور ماہرین قانون کی ایک ٹیم نے اشرافیہ پر ٹیکس لگانے اور قانونی ہیرا پھیری کے اُس کلچر کو ختم کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے جسکے ذریعے طویل عرصے سے طاقتور کارپوریٹ مفادات کا تحفظ کیا جاتا رہا ہے۔ خطیر مالی وسائل رکھنے والے طبقات اپنے واجب الادا ٹیکسوں کی ادائیگی سے بچنے کی خاطر اب تک عدالتوں سے حکم امتناعی حاصل کرنے کے بعد تاخیری حربے استعمال کرکے ٹیکس کی ادائیگی سے راہ فرار اختیار کرتے رہے ہیں ۔ اسکے باعث حکومتیں مالی وسائل کی فراہمی کیلئے تنخواہ دار افراداورعوام پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھاتی رہی ہیں لیکن ٹیکس نظام میں اصلاحات اور عدالتوں میں جلد فیصلوں کی راہ ہموار ہونے کے بعد توقع ہے کہ صورت حال میں واضح تبدیلی آئے گی اورعوام پر ٹیکسوں کا بوجھ کم کیا جاسکے گا۔تاہم دولتمند طبقات اپنی اشیاو خدمات کو مہنگا کرکے یہ بوجھ عوام پر منتقل کرنے کی کوشش ضرور کریں گے لہٰذا حکومت کو اس کی روک تھام کا یقینی اہتمام بھی کرنا ہوگا۔ دہشت گردی اور سیاسی انتشار کے مسائل کے حل کیلئے بھی زیادہ مؤثر اقدامات ناگزیر ہیں۔ اس کے بغیر سرمایہ کاری میں خاطر خواہ اضافہ ممکن نہیں۔بہتر ہوگا کہ اس مقصد کیلئے وسیع تر مشاورت کا اہتمام کرکے زیادہ نتیجہ خیز حکمت عملی وضع کی جائے۔