• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خضر حیات

ننّھا حَسن اپنے والد داؤد صاحب کے ساتھ مغرب کی نَماز پڑھنے کے بعد گھر پہنچا اور کچھ دیر کے بعد رات کا کھانا کھانے میں مصروف ہوگیا کہ اچانک مسجدسے صَدا بُلند ہوئی:” مبارک ہو کہ رَمَضانُ المبارَک کا چاند نظر آگیا ہے“

حسن کھانا چھوڑ کر اپنے ابوجان کی جانب بھاگا جو کہ دوسرے کمرے میں تھے۔حسن کمرے میں داخل ہوتے ہی بولا، ابّوجان! مبارَک ہو! رمضان شريف کا چاند نظر آگیا ہے، اب تو بہت مزہ آئے گا۔ 

داؤدصاحب اپنے لختِ جگر کی باتیں سُن کر مُسکرا دیئے اور اس کے سَر پرپیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے بولے،’’خیر مبارَک ہو بیٹا ! آپ کوبھی اللہ پاک کے مہمان کی آمد مبارک ہو۔‘‘

حسن حیرت سے بولا، اللہ پاک کا مہمان؟ میں سمجھا نہیں ابّو جان‘‘۔

داؤدصاحب بولے، جی حسن بیٹا! رَمَضانُ المبارَک ہمارے لئے اللہ پاک کی طرف سے آیا ہوا بابرکت مہمان ہے۔ ‘‘

’’ارے واہ! لیکن ابّو یہ بابرکت مہینہ کیسے ہے؟ داؤد صاحب نے اس کی برکتیں بتاتے ہوئے کہا کہ اس لئے کہ اس مبارک مہینے میں لوگ کثرت سے نیک کاموں کی طرف مائل ہوجاتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں، قراٰنِ پاک کی تلاوت کرتے ہیں، رات کو تراویح کی نماز پڑھتے ہیں اور مسجدیں تو نَمازیوں سے بھرجاتی ہے۔ یہ تمام عبادات ہم اس لئے کرتے ہیں تاکہ اللہ پاک کا یہ مہمان ہم سے راضی ہوجائے اور جب یہ رُخصت ہوتو ہم سے ناراض نہ ہو۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں شیطان قید ہوجاتا ہے۔

حسن بولا،جی ابوجان یہ بہت اچھی بات ہے میں بھی نیت کرتا ہوں کہ اس مہینے کو راضی کروں گا‘‘۔

’’ شاباش بیٹا! لیکن آپ کس طرح راضی کریں گے اس مہمان کو؟ ‘‘داؤدصاحب نے اپنے بیٹے سے سوال کیا۔

’’میں پانچ وقت کی نَماز پڑھوں گا اور قراٰنِ پاک کی تلاوت بھی کروں گا۔‘‘

بیٹا! یہ تو آپ پہلے سے ہی کرتے ہیں، داؤد صاحب نے مُسکراتے ہوئے کہا۔

ابّو جان، پھر آپ ہی بتائیں کہ میں کس طرح اس مہان کو راضی کروں؟ حسن نے سوال کیا۔

بیٹا! آپ کی عمر کتنی ہوچکی ہے؟ داؤد صاحب نے پوچھا۔

’’ 10سال‘‘۔ حسن نے جلدی سے جواب دیا۔ داؤد صاحب بولے،جی بیٹا آپ کی عمر 10سال ہوچکی ہے آپ پر روزہ فرض تو نہیں، مگر پھر بھی آپ کو روزہ رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے، تاکہ آپ بھی اس مہینے کی برکتیں حاصل کرسکیں اور جب روزہ فرض ہوجائے تو روزہ رکھ سکیں۔ حسن بولا، جی ابّوجان میں بھی روزہ رکھوں گا۔ اِنْ شَآءَ اللہ لیکن ابّوجان! روزہ رکھنے کا ہمیں فائدہ کیا ہوتا ہے؟

’’ بہت اچّھا سُوال کیا آپ نے، بیٹا! روزہ رکھنے کا سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہوتا ہے کہ اللہ پاک ہم سے راضی ہوگا اور اس کا مہمان رَمَضانُ المبارَک کل قِیامت کے دن اللہ پاک کی بارگاہ میں ہماری سِفارش کرے گا۔ روزہ میں جب ہمیں بھوک اور پیاس لگتی ہے تو اس سے ہمیں

ان لوگوں کی بھوک اور پیاس کا بھی احساس ہوتا ہے کہ جو غریب ہونے کی وجہ سے بھوک اور پیاس کو بَرداشت کرتے ہیں، لہٰذا روزہ کی برکت سے ہمیں ایسے لوگوں کی مدد کرنے کا بھی جذبہ ملتا ہے، اسی طرح روزہ سے ہمیں صبر اور برداشت کا بھی جذبہ ملتا ہے۔ 

واہ! ابّوجان روزہ رکھنے کے تو بہت ہی زیادہ فائدے ہیں۔ میں اِنْ شَااللہ ضرور روزے رکھوں گا۔‘ حسن نے اپنی پیاری سی نیّت کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ اور داؤد صاحب اپنے لختِ جگر کے اس جذبہ کو دیکھ کر اللہ پاک شکر ادا کرنے لگے۔