اسلام آباد(مہتاب حیدر) پاکستان اور آئی ایم ایف کے وفد کے درمیان باضابطہ مذاکرات کے آغاز کے ساتھ ہی فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو ایک بڑا چیلنج درپیش ہے کہ وہ دورہ کرنے والے آئی ایم ایف مشن کو منی بجٹ سے بچنے کے لیے متفقہ ہنگامی اقدامات پر قائل کرے۔آئی ایم ایف ،وزارت خزانہ مذاکرات ہوئے ہیں تاہم کسی باضابطہ بیان کااجرا نہ ہوا، البتہ تصاویرجاری کردی گئی ہیں۔اضافی محصولات کے اقدامات اٹھانے کے بجائے، ایف بی آر کے اعلیٰ حکام پوری کوشش کر رہے ہیں کہ آئی ایم ایف کو اس بات پر قائل کیا جائے کہ کچھ ایسے شعبے ہیں جہاں ٹیکس کی شرحیں بہت زیادہ ہیں، اور اگر ان شرحوں کو کم کیا جائے تو محصولات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ انہوں نے مثال کے طور پر کہا کہ جائیداد کی لین دین پر عائد ٹیکس کو کم کرنے کی ضرورت ہے، اسی طرح سگریٹ پر ایکسائز ڈیوٹی میں بھی کمی کی جانی چاہیے۔اعلیٰ سرکاری ذرائع نے منگل کے روز تصدیق کی کہ آئی ایم ایف کا وفد وزیر خزانہ و محصولات محمد اورنگزیب اور ان کی اقتصادی ٹیم، جن میں سیکریٹری خزانہ امداداللہ بوسال اور چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال شامل تھے، کے ساتھ ابتدائی اجلاس کر چکا ہے۔ وزارت خزانہ نے صرف آئی ایم ایف کے اجلاس کی تصاویر جاری کیں لیکن کوئی باضابطہ پریس بیان جاری نہیں کیا۔اب دو آپشنز زیر غور ہیں۔ایک یہ کہ قرضوں کی ادائیگی میں کمی کے نتیجے میں حاصل ہونے والی مالی گنجائش (1.3 کھرب روپے) کو ایف بی آر کی موجودہ مالی سال کے محصولات کی کمی کو پورا کرنے کے لیے استعمال کیا جائے تاکہ مالی خسارہ اور بنیادی بجٹ کے طے شدہ اہداف حاصل کیے جا سکیں۔اور دوسرا اس دستیاب مالی گنجائش کے کچھ حصے کو توانائی کے گردشی قرض (سرکلر ڈیٹ) کو کم کرنے اور بجلی کے نرخوں میں کمی کے لیے استعمال کیا جائے۔