• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’رمضان کریم‘‘ نزولِ قُرآن اور ربِ ذُوالجلال کے قُرب و رضا کا مہینہ

مفتی عبدالرزاق نقشبندی

رمضان المبارک اور قرآن کریم کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ترجمہ: ’’رمضان کا مہینہ ہے، جس میں قرآن نازل کیا گیا لوگوں کو ہدایت دینے والا اور روشن دلیلیں ہدایت دینے والی اورحق وباطل میں فیصلہ کرنے والی‘‘۔ (سورۃالبقرہ:185)

رمضان المبارک قرآن ہی نہیں، بلکہ دیگر آسمانی کتابوں اور صحائف کے نازل ہونے کا مہینہ بھی ہے۔ ماہِ رمضان المبارک کی آمد اور اِس کے روزے انسان کی زندگی میں ایک انقلابی عمل برپا کرکے اُسے تقویٰ کی اعلیٰ منازل پر فائز کرنے کا وسیلہ اور ذریعہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے : ترجمہ:’’اے ایمان والو!ہم نے تم پر رمضان کے روزے فرض کئے جیسے تم سے پچھلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تمہیں تقویٰ اور پرہیزگاری حاصل ہو‘‘۔ (سورۃالبقرہ:182)

قرآن کا مقصد ہدایت اور تقویٰ عطا کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ترجمہ: ’’(یہ) وہ عظیم الشان کتاب ہے ،جس (کے کلام اللہ ہونے ) میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے ،یہ اُن مُتّقیین کے لئے ہدایت ہے‘‘۔ (سورۃ البقرہ:2)

قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام اور انوار وتجلیّاتِ الٰہیہ کا منبع وسرچشمہ ہے ۔اللہ تعالیٰ نے انسان کی طبیعت میں ایک طرف مادّی وسفلی تقاضے پیدا فرمائے، جو کائنات میں پائے جانے والے دوسرے حیوانات میں بھی ہیں، دوسری طرف انسان کی فطرت کو روحانیت اور ملکوتیت کا اعلیٰ جوہر بھی عطا فرمایا ،جو ملائے اعلیٰ کی بہترین مخلوق فرشتوں کی صفت ہے ۔ 

اَروَاحِ بشریہ میں اُن انوار وتجلّیات ِ الٰہیہ کے ظہور سے حجاباتِ بشریہ مانع ہوتے ہیں۔ ان حجابات کے زوال اور کشف کا اعلیٰ ترین ذریعہ روزہ ہے۔ یہی ایک سبب بندے کے لئے قرآن اور رمضان کے عملی رشتے کو مضبوط تر بناتا ہے۔ قرآن ہدایت اور روشنی ہے، یہ تو قوموں میں انقلاب برپا کرنے کے لئے نازل کیا گیا تھا ، اس پر عمل کرنے والوں کو سارے جہاں پر فضیلت بخشی گئی۔

ہماری سوچ کیونکر محدود ہو گئی کہ ہم نے اِسے اتنے معمولی کاموں کے لئے سمجھ لیا اور اتنے پر اکتفا کرلیا کہ بس کسی پریشانی یا موت، میّت کے وقت قرآن پڑھوا دیا جائے، آسیب زَدہ ، بیمار پر اِس سے دم کی ،بیٹی رخصت کرتے وقت اُس کے سر پر سائبان کردیاجائے، کہیں اپنا کردار داؤ پر لگا ہو تو اپنی ذات بچانے کے لئے یا اپنی سچائی یا جھوٹ کے تصفیے کے لئے، ذاتی مفادات حاصل کرنے کے لئے بطور قسم اٹھالیا جائے ،کیا ہمارا قرآن سے بس اتناہی واسطہ ہے۔

جبکہ اللہ تعالیٰ واضح طور پر قرآن مجید میں غور کرنے کا حکم ارشاد فرما رہا ہے۔ اسلام کا یہ نظریہ ہرگز نہیں کہ جسے ہمارے معاشرے میں اپنا لیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ترجمہ:’’تو کیا وہ قرآن میں غور نہیں کرتے یا اُن کے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں‘‘۔(سورۂ محمد :24 ) 

پھر ایک مقام پر اپنے اِس کلام کی عظمت کو بیان فرمایاکہ پہاڑ جیسی سخت جان شے ہمارے خوف سے ریزہ ریزہ ہوتی دکھائی دیتی، اگر یہ قرآن اُس پر نازل ہوجاتا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ترجمہ: ’’ اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر نازل کردیتے تو (اے مخاطب) ضرورتو اُسے جھکتا ہوا، اللہ کے خوف سے پھٹا ہوا دیکھتا‘‘۔(سورۃالحشر:21)

انسان کے قلب کو اللہ تعالیٰ نے قرآن سے مُزیّن فرمایا اور پھر یہ ارشاد فرمایا: ترجمہ: ’’ بے شک ہم نے آسمانوں، زمینوں اور پہاڑوں پر اپنی امانت پیش کی، تو وہ اِس کے اٹھانے پر آمادہ نہ ہوئے اور اس سے ڈر گئے اور انسان نے اسے اٹھالیا، بے شک وہ بڑا زیادتی کرنے والا، نادان تھا‘‘۔ (سورۂ احزاب:72)

تشریح :ظلم کی تعریف : وضع الشیٔ الیٰ غیر محلہ (کسی شے کو اُس کی جگہ سے ہٹا دینا ظلم ہے) آیت میں ظلم بمعنیٰ قوتِ برداشت ہے یعنی انسان نے خود کو اس بوجھ کے اٹھانے کے قابل سمجھا۔ جہل کے معنی بے خبر اور غافل ہونے کے ہیں یعنی کسی اورنے یہ بوجھ کیوں نہ اٹھایا ،اس سے غافل ہوکر انسان نے اِس بوجھ کو اٹھالیا۔ بقول علامہ اقبال ؎

سختیاں کرتاہوں دل پر غیر سے غافل ہوں میں ہائے کیا اچھی کہی ظالم ہوں میں جاہل ہوں میں

ہے میری ذلت ہی کچھ میری شرافت کی دلیل

جس کی غفلت کو ملک روتے ہیں وہ غافل ہوں میں

رسول اللہ ﷺ رمضان اور قرآن کے باہمی ربط کو اِس حدیث پاک میں یوں بیان فرماتے ہیں: ترجمہ:’’ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (روزِ قیامت) روزے اور قرآن (دونوں) بندے کی رب کے حضور شفاعت کریں گے، روزے عرض کریں گے: اے رب العزت میں نے اِسے دن کے وقت کھانے، پینے اور لذّتِ شہوات سے روکے رکھا، پس میری شفاعت اِس کے حق میں قبول فرما، اور قرآن یہ عرض کرے گاکہ مولیٰ! میں نے اِسے رات کی بھرپور نیند سے محروم رکھا (کہ راتوں کو اٹھ کر تلاوت کرتاتھا ) پس میری شفاعت اِس کے حق میں قبول فرما،اللہ تعالیٰ ان دونوں کی شفاعت کو قبول فرمائے گا (اور اُس بندے کو بخش دے گا)‘‘۔(بیہقی )

ترجمہ: ’’اُمّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: نماز میں قرآن کی تلاوت کرنا، غیر نماز میں تلاوت کرنے سے افضل ہے اور نماز کے علاوہ قرآن کی تلاوت کرنا تسبیح وتکبیر سے افضل ہے اور تسبیح کرنا صدقہ کرنے سے افضل ہے اور صدقہ کرنا روزے سے افضل ہے اور روزہ جہنم سے ڈھال ہے ‘‘۔

رمضان المبارک کے آخری عشرے میں رسول اللہ ﷺ شب بےداری فرماتے یوں تو سال بھر، آٹھوں پہر، صبح وشا م زندگی کا ہرلمحہ یادِ خدا میں بسر ہوتا تھا، لیکن رمضان المبارک میں خصوصی اہتمام فرماتے تھے۔ حدیث پاک میں آتا ہے: ترجمہ: ’’جب رمضان المبارک کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو رسول اللہ ﷺ کمر ہمت باندھ لیتے ،شب بےداری فرماتے اور اہل وعیال کو بھی بےدار فرماتے‘‘۔ ( صحیح بخاری :2024)

اُسوۂ رسول ﷺ یہ درس دیتا ہے کہ ہم اِن ساعات کو غنیمت جانتے ہوئے اپنی اپنی بخشش کا سامان کریں ،غفلت کی دبیز چادر کو اتار پھینکیں اور عبادات پر کمر بستہ نہیں ہوسکتے تو کم ازکم اَخلاق و کردار تو سنوار سکتے ہیں۔رمضان المبارک انسانی زندگی میں حقیقی انقلاب کی نوید سناتا ہے۔ رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی جس طرح بڑے پیمانے پر ہمارے معمولات و مشغولات میں تبدیلی آتی ہے ،لوگوں میں نیکی کا جذبہ بڑھ جاتاہے ،مساجد میں نمازیوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔

سڑکوں، بازاروں، محلوں، گلی کوچوں میں ایک مسرت کا سماں بندھ جاتا ہے۔ ایک وقت تھاکہ مساجد میں اعتکاف کے لئے کسی کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں، لیکن آج اعتکاف کرنے والوں کی بڑی تعداد ہر محلے میں موجود ہے، خوش آئند بات یہ ہے کہ اکثریت نوجوانوں کی ہے لیکن ضروری یہ ہے کہ اعتکاف کے نفسِ روح کو سمجھا جائے اور شرعی تقاضوں کے مطابق ادا کیا جائے۔

اِ ن سارے حقائق کی روشنی میں ہوناتویہ چاہئے کہ رمضان کے بعد بھی رمضان المبارک کے روحانی اَثرات ہم پر ظاہر ہوں اور رمضان کے بعد بھی ہمارے شب وروز کے معمولات اور اَطوار میں تبدیلی آئے، لیکن نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بہت کم ایسا ہوتا ہے۔ 

شوال المکرم کا چاند نظر آتے ہی سارے بندھن کھل جاتے ہیں اور لوگ رمضان کی کیفیات سے باہر نکل آتے ہیں، میڈیا میں فحاشی کا ایک سیلاب اُمڈ آتا ہے، جبکہ حدیثِ پاک میں شبِ عید کے قیام کا اجر بیان کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ترجمہ:’’جس نے عیدالفظر اور عید الاضحی کی دونوں راتوں میں ﷲ تعالیٰ کی ذات سے اجر کی امید پر نفلی عبادت کے لئے قیام کیا تو جس دن بد عملوں کے دلوں کی موت واقع ہوگی، اس کا دل نہیں مرے گا‘‘ یعنی اس کا دل ایمان اور ﷲتعالیٰ کے عرفان اور اس کے نبی اکرمﷺ کی محبت سے منور رہے گا‘‘۔(ابن ماجہ : 1782)

کاش ہم ویسے ہوجائیں، جیسا کہ قرآن ہمیں دیکھنا اور بنانا چاہتا ہے۔ ہمارے اَعمال سے جھوٹ، دھوکا، بے ایمانی، خود فریبی جیسی صفاتِ رذیلہ دور ہوجائیں۔ نیکی کا جذبہ سارے جذبوں پر غالب آجائے، حسنِ سلوک ہماری عادت بن جائے، امن ومحبت ہمارا شِعار بن جائے، تعمیر وترقی ہماری سوچ بن جائے۔پھر ہم بدلتے ہوئے زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا سیکھ سکتے ہیں۔

اقراء سے مزید