ارے غضب خدا کا ! یہ کیسا انداز گفتگو ہے بھئی!! آج کل کی ماؤں نے یہ کیسے بولنا شروع کردیا ہے؟ میں تو جب سنتی ہوں پریشان ہوجاتی ہوں۔ ٹھیک ہے دنیا بدل رہی ہے، انگریزی وقت کی ضرورت ہے اور ہم تو ویسے ہی غلام قوم ہیں انگریز چلا گیا پر ہمارے ذہن غلام کے غلام ہی رہ گئے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ آپ اپنی زبان ہی بگاڑ لیں۔
ہمارے بچوں نے بھی انگریزی میڈیم اسکولوں میں ہی پڑھا ہے ہم تو ایسے کبھی نہیں بولے کہ ’’ بیٹا کھانا فنش کرلو ، دروازہ کلوز کردو ، آپ کے لیگ پر چوٹ لگی ، ماما کو گڈ بائے بولو ، ایگ ایٹ کرلو اور ہینڈ واش کرلو ۔‘‘
ہمارے ایسے نہ بولنے کے باوجود ہمارے بچوں نے انگریزی سیکھ لی اور پھر الحمدللہ ہمارے بچوں کو کراچی کی بہترین یونیورسٹیوں میں داخلے بھی مل گئے اور اس کے بعد نوکریاں بھی مل گئیں ۔یہ کھانا ’’ ایٹنا ( eatna ) اور پھر فنش کرنا کہنے سے بچے کی کونسی انگریزی بہتر ہوگی ہماری تو سمجھ میں ہی نہیں آتا ؟
اس سے کہیں بہتر ہے کہ اگر آپ کو اپنے بچوں کو انگریزی سکھانا ہے تو دونوں زبانیں ساتھ ساتھ سکھائیں اردو کے وقت پوری بات اردو میں کریں اور جب انگریزی بولیں تو پوری بات انگریزی میں ہی کریں ۔ میرا مشاہدہ ہے کہ یہ دو رخی بگڑی ہوئی زبان زیادہ تر وہ مائیں بولتی ہیں کہ جن کو خود انگریزی نہیں آتی حالانکہ یہ بھی کوئی قابل شرم بات نہیں ہم تو خود نہایت کمزور انگریزی جاننے والوں میں سے ہیں اور اس پر مجال ہے جو کبھی شرمندہ ہوئے ہوں۔
ایک گھریلو بیوی اور ماں کو انگریزی آتی ہے تو بہت اچھی بات ہے لیکن اگر نہیں آتی تو شرمندگی کی بات بھی نہیں ہے، اس لئے کہ کیا انگریزوں کو اردو آتی ہے جو یہ ضروری ہو کہ ہمیں بھی انگریزی آئے۔ آپ اپنی سمجھداری، بصیرت ، محبت، محنت اور بچوں کو بھرپور توجہ دیکر ان کی تعلیمی قابلیت انگریزی جاننے والی ماؤں سے بھی بہتر کرسکتی ہیں ۔اس کے لئے بے تکی انگریزی بولنا بالکل بھی ضروری نہیں۔
اگر آپ بچے سے کہیں گی کہ’’ بیٹا کھانا کھالو ‘‘ تو وہ کھانا ہی کھائے گا اس کے لئے ’’کھانا ایٹ کیجئے ‘‘ کہنا ہرگز بھی ضروری نہیں۔ اگر’’ ہینڈ واش کرلو ‘‘ کی جگہ ’’ہاتھ دھو لو ‘‘ کہا جائے تو یقین کریں کہ بچے کی انگریزی پر رتی بھر فرق نہیں پڑے گا ۔ ’’ کھانا ایٹنا ‘‘ کہنے سے تو ’’ کھانا ٹھونسنا ‘‘ کہنا بہتر ہے کم از کم بچہ اردو کا ایک نیا لفظ تو سیکھ لے گا۔ ہر دور کے مختلف طریقے ہوتے ہیں مجھے یاد ہے کہ میرے لڑکپن میں جب ماؤں نے اپنے بچوں کو ’’ آپ ‘‘ کہنا شروع کیا تو میرے دادا دادی ہنستے تھے کہ’’ اب تو پیدا ہوئے بچوں کو آپ جناب کہا جاتا ہے ۔‘‘
اس وقت ماؤں کی توجیہہ ہوتی تھی کہ ہم ایسے بولیں گے تو یہ بھی ایسے بولے گا، جس پر ہمارے بزرگ کہتے تھے کہ’’ تم جیسا سکھاؤ گی یہ ویسا ہی سیکھے گا ‘‘خیر یہ بات تو جملہ معترضہ سمجھئے ہم انگریزی اور اردو کی بات کررہے تھے۔ اب انگریزی جاننے والی ماؤں کا ایک گروہ ایسا بھی ہے جو اپنے لاڈلوں سے انگریزی میں ہی بات کرتی ہیں۔
اگر گھر میں بزرگ ساتھ رہتے ہیں تو انگریزی نہ آنے کی صورت میں دادا دادی، نانا نانی کو بچے سے بات کرنے میں مشکل ہوتی ہے گھر سے باہر بچہ لوگوں کو اردو بولتے دیکھتا ہے تو نتیجتاً لوگوں کے درمیان کنفیوز ہوجاتا ہے، کیوںکہ اس کا ذخیرہ الفاظ محدود ہوتا ہے، اس لئے وہ لوگوں کے درمیان خاموش رہتا ہے ان سے بات نہیں کرسکتا۔
یقین کریں بچے بہت ذہین ہوتے ہیں وہ کم وقت میں مختلف زبانیں سیکھ جاتے ہیں، اس لئے بچے کو سب سے پہلے اپنی مادری زبان سکھائیں، پھر قومی زبان سکھائیں، تاکہ گھر سے باہر وہ لوگوں سے بہتر طریقے سے بات چیت کرسکے، اپنی زبان میں سوچ سکے جو بچہ دس دس کلو بیگ اٹھا کر اسکول جاتا ہے اور ان موٹی موٹی کتابوں کو یاد بھی کرتا ہے وہ دو تین زبانیں آرام سے سیکھ بھی جاتا ہے۔ یہ کوئی بڑائی نہیں کہ آپ کا بچہ انگریزی میں فر فر بات کرتا ہے بڑائی یہ ہے کہ آپ کا بچہ اپنی زبان جانتا ہے اور پھر اس کے علاوہ بھی دوسروں کی زبان بول اور سمجھ سکتا ہے۔
مولانا ابو الاعلی مودودی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ’’ہماری مصیبتوں کا اس کے سوا کوئی حل نہیں کہ ان دیسی انگریزوں سے پیچھا چھڑایا جائے امر واقعہ یہ ہے کہ انگریز خود تو چلا گیا لیکن اس کا بھوت ہمیں چمٹ کر رہ گیا ہے‘‘ تو برائے مہربانی اس ’’ہینڈ واش ‘‘ سے بھی نجات حاصل کریں ،ورنہ اس کا نتیجہ بھی پھر ’’ تہذیب سے ہینڈ واش ‘‘’’ تمدن سے ہینڈ واش ‘‘ ’’ ثقافت سے ہینڈ واش ‘‘ اور پھر ’’مذہب سے بھی ہینڈ واش ‘‘کی صورت میں نکلے گا۔