عورتوں کے عالمی دن پر ہر بار ایک جیسی تقاریر سن کر احساس ہوتاہے شاید یہ ملک عورتوں کو حقوق دینے کے حوالے سے دنیا کا واحد اور مثالی ملک ہے، مگر ہال سے نکلتے ہی بے رحم مناظر روح کو مضمحل کر دیتے ہیں۔تاہم اس بار اپنی بے پناہ خوبصورت غزلوں اور رسیلے پنجابی گیتوں کی بدولت دنیا بھر میں چاہے جانے والے شاعر پروگرام منیجر اور ایگزیکٹو پروڈیوسر ریڈیو پاکستان لاہور ،ابرار ندیم نے بہت وژنری اسٹیشن ڈائریکٹر ڈاکٹر احمر سہیل بسرا کی ہدایات پر 8 مارچ کی مناسبت سے ایسے منفرد پروگرام کا انعقاد کیا کہ شرکت کرکے دل خوش ہوگیا۔ پنجاب کی توانا آواز نور جہاں کے نام سے منسوب نور جہاں ہال میں خواتین کے لئے پروگرام میں مرد بھی موجود تھے بلکہ اس کی صدارت بھی سیکرٹری اسکول پنجاب نذیر وٹو نے کی جبکہ ثمن رائے ڈی جی پاپولیشن اور اداکارہ نشو بیگم سمیت مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والی نمایاں خواتین بطور مہمان خصوصی شریک ہوئیں ،انھوں نے زندگی کو اپنے تجربے کی روشنی میٹھے اور کڑوے ذائقوں سمیت بیان کیا۔ یہ تمام معاشی طور پر مستحکم ،کامیاب عورتیں تھیں اس لیے اعتماد اور وقار سے مالا مال تھیں۔ثمن رائے کی اس بات سے ہر فرد اتفاق کرے گا کہ عورت کو سب سے پہلے اپنی فکر خود کرنی چاہیے ،جب تک وہ شعوری طور پر اپنی فکر کرنے پر راضی نہیں ہو گی کوئی دوسرا اس کیلئے کچھ نہیں کر سکے گا۔محترم نذیر وٹو اور اسٹیشن ڈائریکٹر ڈاکٹر احمر سہیل بسرا کی گفتگو میرے سمیت ہال میں بیٹھے ہر فرد کے لئے بہت خوش کن اور امید افزا تھی اور یہی اس تقریب کی خوبصورتی تھی۔ مرد عورت مل کر معاشرہ بناتے ہیں ،اس لئے مسائل بھی مل کر ہی حل کئے جاسکتے ہیں۔الگ الگ ڈبوں میں بیٹھ کر رویوں میں تبدیلی لانی ممکن نہیں ہوتی۔
ان دونوں حضرات نے سچی اور عملی باتیں کیں ورنہ سالوں سے ایک ہی اسکرپٹ الگ الگ طریقوں سے بیان کر دیا جاتا ہے کہ عورت کو مذہب نے فلاں فلاں سربلندیاں عطا کی ہیں ،معاشرے نے اتنے اعزازات بخشے ہیں وغیرہ ،جبکہ عملی تصویر اس کے بالکل برعکس ہوتی ہے بالکل اسی طرح جس طرح ہمارے ہاں عورتوں کے حوالے سے بہت سے قوانین موجود ہیں لیکن ان پر عمل نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ یہ عمل درآمد رویوں میں تبدیلی کے بغیر ممکن ہی نہیں ہو سکتا۔ عورت کے مسائل کا سبب وہ سوچ ہے جس نے ہر طرح کی ترقی اور تنزلی میں عورت کو گناہ و ثواب کا ذمہ دار ٹھہرا رکھا ہے ، سماج کے اجتماعی رویوں اور عمل کے برعکس عورت کے لباس اور فیشن کو موردالزام ٹھہرا کر عظیم بننا سہل ہے مگر مجرمانہ فعل ہے، جو ظاہریت تک محدود کھوکھلے سماج کا عکاس ہے، معاشرے میں بہتری کے لئے کوشاں زیادہ تر مذہبی رہنماؤں کی تبلیغ کا ارتکاز، توجہ عورت کے صنفی معاملات ،مسائل ، زچگی اور بناؤ سنگھار کے حلال ٹوٹکوں پر رہتا ہے۔وہ سچائی ، دیانت داری ، اخلاص ، مساوات ، خدمت خلق کی تلقین کو اہم سمجھتے ہیں نہ ملاوٹ ، ہیرا پھیری ، جھوٹ ، استحصال سے پرہیز کی تنبیہ ،زبانی کلامی شغل میلے نے عورت اور گناہ کو گڈ مڈ کر دیا ہے ،عورت کو ایک انفرادی وجود کی بجائے شے کی طرح دیکھنا اس کے ساتھ سب سے بڑی زیادتی ہے۔ مرد بھی باپ 'بھائی اور بیٹے کا کردار نبھاتا ہے مگر اسے یہاں تک محدود نہیں کیا گیا جبکہ عورت کو ماؤں ،بہنوں اور بیٹیوں تک محدود کر کے ان کی ذاتی شناخت مجروح اور صلاحیتوں کو اجاگر نہ ہونے دینے کی روش اختیار کی گئی ہے، عورت کو تعریفی اسناد کی نہیں،بطور فرد اپنی ہستی کے اقرار کے ساتھ جینے کی تمنا ہے، مرد عورت دونوں فرد ہیں اور منفرد صلاحیتوں سے مالامال ہیں۔
ضروری ہے کہ دونوں اپنی اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں ایک جیسی آزادی رکھتے ہوں،بیٹے کو وارث اور بیٹی کو بوجھ سمجھنے کی بجائے اولاد کو ایک جیسا اسٹیٹس اور تعلیم و ترقی کے مواقع دیے جائیں۔ہر عورت کا معاشی طور پر مستحکم ہونا بہت ضروری ہے،یہ اس کی ذات،خاندان اور ملک کی فلاح سے مشروط ہے۔کام کرنے والی عورت اپنے حقوق کو زیادہ بہتر طریقے سے سرانجام دیتی ہے۔کیونکہ گھر میں بیٹھی ایلیٹ کلاس کی عورتوں نے خود کو عجیب مشاغل میں مصروف کرکے بچوں کو نظر انداز کیا جس کے باعث ان کے بچوں کی مختلف منفی سرگرمیوں کا شکارہونے کی خبریں عام رہتی ہیں۔اگر وہ بھی کام کریں زندگی کی مقصدیت سےجڑیں تو اس کا اثر پورے سماج میں نظر آئے گا۔
آپ صغرا صدف،ثمن رائے اور عفت علوی سے مقابلہ جاری رکھیں مگر اپنی بیٹیوں سے نہیں ، ان کی بطور فرد پرورش کرکے ان کی صلاحیتوں کو اجاگر ہونے کا ہر موقع فراہم کریں۔