مقبوضہ بیت المقدس (اے ایف پی، جنگ نیوز) اسرائیل کے انتہا پسند وزیر خزانہ اسٹومرچ نے کہا ہے کہ غزہ سے فلسطینیوں کی بے دخلی کا ٹرمپ کا منصوبہ واضح ہورہا ہے ، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لاکھوں فلسطینیوں کو دوسرے ممالک میں منتقل کرنے کے منصوبے کی بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی ہے، اسرائیل اور حماس کے وفود مذاکرات کے لئے دوحہ پہنچ چکے ہیں ، مذاکرات سے قبل صیہونی فورسز نے اتوار کے روز بھی غزہ پر بمباری کی ہے ، حماس کے ترجمان، حازم قاسم نے اے ایف پی کو بتایاکہ "ہم مصر اور قطر میں ثالثوں کے ساتھ ساتھ امریکی انتظامیہ کے ضامنوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ قابض اسرائیل معاہدے کی تعمیل کرے اور دوسرے مرحلے کے ساتھ طے شدہ شرائط کے مطابق آگے بڑھا جائے"، حماس کے ساتھ غیر معمولی براہ راست بات چیت کرنے والے امریکی قیدیوں کی رہائی کیلئے امریکی ایلچی نے اتوار کو کہا کہ انہیں یقین ہے کہ حماس کے زیر حراست تمام شہریوں کو رہا کرنے کے لئے "ہفتوں کے اندر" ایک معاہدہ طے پا جائے گا۔ایڈم بوہلر جو کہ خود ایک یہودی امریکی ہیں نے تسلیم کیا کہ یہ ایک ایسے گروپ کے رہنماؤں کے ساتھ آمنے سامنے بیٹھنا "عجیب" رہا ہے جسے امریکا نے 1997 سے "دہشت گرد" تنظیم کے طور پر درج کیا ہے۔ یہ بات چیت حالیہ ہفتوں میں ہوئی۔ تفصیلات کے مطابق اسرائیلی وزیر اسٹومرچ نے تسلیم کیا گیا ہے کہ یہ ایک بڑے پیمانے پر لاجسٹک اقدام ہوگا۔انہوں نے اپنی پارلیمنٹ کو بتایا کہ یہ منصوبہ انتظامیہ کے ساتھ مل کر جاری کارروائیوں کے ساتھ مزید واضح شکل اختیار کر رہا ہے،اس میں اہم ممالک کی شناخت، امریکا اور اسرائیل کیساتھ ان کے مفادات کو سمجھنا اور تعاون کو فروغ دینا شامل ہے۔اسرائیل نےجنگ بندی مذاکرات کے نئے دور سے قبل شمالی غزہ میں ایک فضائی حملہ کیا جس سے پہلے ہی نازک جنگ بندی کو ایک اور دھچکا لگا ہے۔ اسی دوران اسرائیل حماس کے ساتھ جنگ بندی کے مستقبل پر دوحہ میں تازہ مذاکرات کی تیاری کر رہا ہے۔ اسرائیلی وفد بھی دوحہ پہنچ چکا ہے ۔ بوہلر نے کہا کہ وہ اسرائیل کی "تذبذب" کو سمجھتے ہیں کہ امریکا نے اس گروپ کے ساتھ بالکل بات چیت کی ہے، لیکن کہا کہ وہ "نازک" مذاکرات شروع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔