• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بیلجیئم: عوامی شخصیات کی آکسفیم بیلجیم کی'اسپیک اپ فار فلسطین' مہم کی حمایت

بیلجیئم میں 100 سے زیادہ عوامی شخصیات نے انسانی حقوق اور سماجی بھلائی کیلئے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم آکسفیم (Oxfam) بیلجیم کی مہم 'اسپیک اپ فار فلسطین' کی حمایت کی ہے جو آج سے شروع کی گئی۔ 

فلسطین کی حمایت میں شروع ہونے والی اس مہم کے تحت اب تک 138 فنکار، سیاست دان اور اثر و رسوخ رکھنے والے پبلک فیگرز فلسطین میں جاری تشدد، استعمار اور جبر کے خلاف استثنیٰ اور اس پر حکومتی خاموشی کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

این جی او کی جانب سے شروع کردہ اس مہم کا مقصد بیلجیئم کے لوگوں کو اکٹھا کرنا ہے جو مقبوضہ فلسطینی سرزمین میں ظلم اور تشدد کی مخالفت کرنا چاہتے ہیں۔ 

اس مہم میں ایم پی پیٹرا ڈی سوٹر، کارکن انونا ڈی ویور، اداکار ویرل بیٹنز، مصنف ڈیلا ہرمینز اور موسیقار لورا ٹیسورو، پومیلین تھیز اور کوین واٹرس شامل ہیں۔

دوسری جانب اس مہم کے آغاز پر تنظیم کی طرف سے لکھے گئے کھلے خط میں کہا گیا ہے کہ آکسفیم، بیلجیئن حکام کی "خاموشی" کی بھی مذمت کرتا ہے کیونکہ بیلجیئم کی نئی حکومت فلسطین کی صورتحال کے پیش نظر غیر فعال ہے۔

تنظیم نے کہا کہ بیلجیئن حکومت کی یہ بے عملی ناقابلِ دفاع ہے۔ بیلجیئم کو ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے۔ حکومت کو اس کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا چاہیے اور غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے میں شہریوں کے تحفظ کے لیے اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے۔ 

ان کے کھلے خط میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ یورپی یونین اسرائیل ایسوسی ایشن کے معاہدے کو معطل کرے، غیر قانونی بستیوں سے مصنوعات کی درآمد پر پابندی سمیت اسرائیل کو فوجی آلات کی ترسیل پر پابندی عائد کرے۔

دوسری جانب صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے آکسفیم بیلجیئم کی ڈائریکٹر ایوا سمیٹس نے کہا کہ ہمیں اس مہم میں زبردست حمایت حاصل ہوئی ہے۔ اس حمایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیلجیئم کے لوگ فلسطینی سوال کو عوامی بحث سے غائب ہونے دینے سے انکاری ہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ فلسطین میں ہمارے شراکت داروں اور ساتھیوں کےلیے یہ تحریک ایک انمول حمایت ہے۔ 

دریں اثنا غزہ میں حماس کے زیرانتظام وزارت صحت نے علاقے پر راتوں رات کیے گئے اسرائیلی حملوں میں کم از کم 413 تازہ ہلاکتوں کا اعلان کیا ہے۔

خبروں کے مطابق ان حملوں کے نتیجے میں بہت سے لوگ اب بھی ملبے کے نیچے پھنسے ہوئے ہیں۔

برطانیہ و یورپ سے مزید