• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عید بعد متحدہ اپوزیشن کا قیام، احتجاجی تحریک، دعوے، خواہشات، خواب، حقائق

اسلام آباد (فاروق اقدس)عید بعد متحدہ اپوزیشن کا قیام، احتجاجی تحریک، دعوے، خواہشات ، خواب ، حقائق،قیدی نمبر804اور مولانا فضل الرحمان میں سیاسی حلیف بننے تک ابھی عشق کےکئی امتحاں مقصود ،جماعت اسلامی نے جھنڈی دکھا دی،شاہد خاقان کاکردارمشروط ، پی ٹی آئی میں بھی اختلافات و تنازعات ،عید کے بعد مجوزہ اپوزیشن اتحاد کی جانب سے حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے کے دعوئوں اور اپوزیشن کی بڑی جماعت جمعیت علمائے اسلام کو احتجاج پر آمادہ کرنے کی کوششوں سمیت تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ ابھی تک الائنس کے تنظیمی ڈھانچے کی کوئی واضح شکل بھی سامنے نہیں آسکی ہے۔ جہاں تک اپوزیشن کی تحریک کی کامیابی کا سوال ہے توکوئی ایسی پیشرفت بھی دکھائی نہیں دیتی جس کی بنیاد پر تحریک انصاف کامیابی کا کوئی حقیقی دعویٰ کرسکے، گوکہ تحریک انصاف کے راہنما جنید اکبر یہ دعوے کر رہے ہیں کہ عید کے بعد اپوزیشن کی دیگر پارٹیوں کو ساتھ لیکر حکومت پر چڑھائی کی جائے گی اور مولانا فضل الرحمان ہمارے ساتھ ہوں گے، یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس طرح کے دعوے فقط پی ٹی آئی کے راہنمائوں کی جانب سے ہی سامنے آرہے ہیں، اس کے برعکس بعض ایسی خبریں بھی سامنے آرہی ہیں جو اس امر کی غمازی کرتی ہیں کہ مطلوبہ توقعات کے ساتھ اپوزیشن کے اتحاد کے قیام میں بھی کئی متوقع اور غیر متوقع مشکلات پیش آسکتی ہیں جن میں تحریک انصاف میں داخلی سطح پر اختلافات اور تنازعات بھی شامل ہیں۔ تحریک انصاف کے حامی وکلا اور پی ٹی آئی کے سیاسی راہنمائوں کے درمیان اختیارات اور اہمیت حاصل کرنے کی رسہ کشی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، جس کی مثال گزشتہ دنوں بابر اعوان ایڈووکیٹ کی اڈیالہ جیل میں قیدی نمبر804سے ملاقات تھی جو کافی دنوں سے عمران خان سے ملاقات کے منتظر وکلا اور سیاسی راہنمائوں کو نظرانداز کرکے کرائی گئی تھی۔ جس سے کئی خدشات اور پی ٹی آئی کے حامی وکلا اور راہنمائوں کے تحفظات سامنے سامنے آرہے ہیں۔ دوسری طرف سابق وزیراعظم اور عوام پاکستان پارٹی کے سربراہ شاہد خاقان عباسی جو اس مرتبہ حکومت کے حلیف کے بجائے حریف کی حیثیت سے سامنے آئے ہیں اور پی ٹی آئی ان کا شمار بھی اپنے طور پر ہی اپنے اتحادیوں میں کرتی ہے۔ انہوں نے بھی اس حوالے سے اپنے کردار کو مشروط اور محدود رکھتے ہوئے کہا ہے کہ میں اپوزیشن کے اتحاد کا حصہ نہیں ہوں اور آئندہ بھی کسی غیر آئینی عمل کا حصہ نہیں بنوں گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر جتھہ بنا کر دارالحکومت پر حملہ آور ہونا چاہے گا تو میں ان کے ساتھ ہرگز نہیں ہوں گا، جو بھی ملک میں آئین اور قانون کی حکمرانی کی بات کرے گا میں اس کے ساتھ کھڑا ہوں گا۔ دوسری جانب، جماعت اسلامی نے اپوزیشن الائنس میں باضابطہ شمولیت سے معذرت کر لی ہے اور وہ علیحدہ احتجاجی تحریک چلانے میں دلچسپی رکھتی ہے۔اپوزیشن الائنس نے جماعت اسلامی کو اسلام آباد میں مشترکہ احتجاج کی تجویز دی تھی، جبکہ جماعت اسلامی کو راولپنڈی میں احتجاج کرنے کی تجویز دی گئی، تاہم جماعت اسلامی نے کوئی حتمی جواب نہیں دیا۔

اہم خبریں سے مزید