• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مولانا مفتی جمیل احمد تھانویؒ

مولانا احتشام الحق تھانویؒ دنیائے اسلام میں ایک بلند پایہ عالمِ دین اور مایہ ناز خطیب کی حیثیت سے پہچانے جاتے تھے، اب ان جیسا حق گو، جری عالم پوری دنیا میں نظر نہیں آتا، وہ بہت سی خوبیوں کے مالک تھے، لوگ کہہ دیتے ہیں کہ تھانوی نہ تھے، بلکہ کیرانوی تھے، اوّل تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، کیرانے کا فاصلہ تھانہ بھون کی طرف سے صرف دس میل کا ہے اور یہ کوئی فرق نہیں ہوتا، دوسرے ان کی والدہ جو حکیم الامت مجدد الملت مولانا اشرف علی قدس سرہ کی علاتی بہن تھیں وہ تھانہ بھون کی تھیں اور بحکم ’’ابن اخت القوم منہم‘‘(قوم کی بہن کا بیٹا بھی انہیں میں سے ہوتا ہے) پھر بھی تھانوی ہوگئے، تیسرے یہ کہ نسبت جیسے وطن سے ہوتی ہے، علم و فضل سے بھی ہوتی ہے۔

چوتھے وطن ہی کی نسبت لی جائے تو میں خود اس کا شاہد ہوں کیونکہ وطن دراصل وہ نہیں ہوتا، جہاں کوئی پیدا ہو یا جہاں جائیداد رکھتا ہو، جب کہ سفر میں پیدا ہونے والوں اور غریبوں کا بھی کوئی نہ کوئی وطن ہوتا ہے اور یہ ضروری نہیں کہ جو باپ کا وطن ہو، وہی وطن ہو بلکہ اصل وطن وہ ہے، جہاں آدمی مستقل بودوباش کی نیت کرلے اور جہاں اس کی قصر نماز جائز نہیں۔ 

مولانا تھانوی ؒ نے دہلی کی ملازمت کے زمانے میں خود مجھ سے کہہ دیا تھا کہ تھانہ بھون میں میرے لئے مکان دلوادو، میں اب یہاں ہی رہا کروں گا، اگرچہ موقع نہ مل سکا، اس لئے نیت کے اعتبار سے وطن تھانہ بھون بنالیا تھا، اس لئے بھی وہ تھانوی ہوگئے تھے، پانچویں یہ کہ حضرت حکیم الامت تھانویؒ کی مجلس میں یہ طے ہوا کہ پاکستان میں کام کرنے والے یہی لوگ ہوں گے، جو آج کل نئی دہلی میں کام میں لگے ہوئے ہیں۔ سب سے اہم کام نئی دہلی میں تبلیغ کرنا ہے، اگر یہ اسلام پر جم گئے، تو پورے پاکستان کے لئے یہ تبلیغ نعمت ثابت ہوگی۔ 

یہ طے ہونے پر حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نے 1940ء میں مولانا احتشام الحق مرحوم کو نئی دہلی کے لئے خانقاہ امدادیہ اشرفیہ تھانہ بھون سے ایک مبلغ مقرر کرکے کام میں لگادیا اور پاکستان کے بڑے بڑے وزراء اور حکام میں جو کچھ اثر اسلام کا دیکھا گیا ہے، جیسے لیاقت علی خان، سردار عبدالرب نشتر، خواجہ ناظم الدین اور محمد علی جناح (وغیرہم) کا دینی رجحان صرف تھانہ بھون کی وجہ سے تھا کیونکہ حضرت حکیم الامتؒ نے مجلس دعوۃ الحق کے نام سے علماء کی ایک تنظیم اعلیٰ حکام کی تبلیغ کے لیے تشکیل دی تھی اور مولانا احتشام الحق صاحب بھی اسی مجلس کے پروگرام کے مطابق نئی دہلی میں تبلیغ دین کا کام کررہے تھے۔

۲۲ نکاتی دستور، دینی مدارس کا قیام یعنی 1949ء میں سندھ میں دارالعلوم الاسلامیہ (اشرف آباد) ٹنڈوالٰہ یار، دارالعلوم دیوبند کی طرز پر متبادل کے طور پر پاکستان کا سب سے پہلا دینی مدرسہ شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کی خواہش کے مطابق حضرت مولانا احتشام الحق تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے معاصرین کے ساتھ مل کر قائم فرمایا تھا۔ (از قلم تنویر الحق 7-7-21)اور دینی مسائل پر اہم اجتماعات وغیرہ جو نمایاں کارنامے نظر آرہے ہیں یہ سب تھانہ بھون کا کام ہے اور اسی تھانوی جماعت کے حضرات کی کاوشوں کا نتیجہ ہے تو مولانا چونکہ خانقاہ تھانہ بھون کے مبلغ تھے اس لئے بھی تھانوی کہلاسکتے ہیں بلکہ وہ سب لوگ بھی جنہوں نے حضرت حکیم الامت تھانویؒ کا اثر قبول کیا وہ سب تھانویؒ کہلاسکتے ہیں۔

پھر بھائی بہن کے واسطہ سے بھی داماد بھی اپنے داماد ہوتے ہیں ان کے نواسہ داماد اور پوتا داماد بھی اپنے ہیں تو حکیم الامت تھانوی کے حقیقی بھائی منشی اکبر علی صاحب مرحوم کی نواسی سے مولانا کی شادی ہوئی ہے تو ان کے نواسہ داماد قرار پائے تو حضرت حکیم الامت کے بھی نواسہ داماد ہوئے معلوم نہیں اس میں خلجان کیوں پیدا ہوا ہے۔ 

یہ اعتراضات گویا اس بات کی دلیل ہیں کہ مولانا میں (ان زباں زدِ عام خرافات کے علاوہ از تنویر) کوئی عیب نہ تھا، نہ ہے۔ تھانوی کہلانا اور حکیم الامت کا داماد لکھ دینا کوئی عیب نہیں، وہ تھانوی بھی پکے تھے اور حکیم الامت کے نواسہ داماد بھی پکے تھے۔ ویسے بھی مولانا ایک کریم النفس انسان تھے، وہ اخلاق کریمانہ میں یکتائے عالم تھے، ہمارے نزدیک مولانا احتشام الحق تھانوی مرحوم کی شخصیت شک و شبہ سے بالاتر تھی انہوں نے عمر بھر دین اسلام کی بے لوث خدمت انجام دی ہے۔ دارالعلوم الاسلامیہ ٹنڈوالہ یار سندھ اور جامع مسجد جیکب لائن کراچی مولانا کی عظیم یادگار ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے ۔( آمین)