ہمارے ہاں پولیو کے قطروں سے متعلق کئی طرح کے شکوک و شبہات کا اظہار کیا جاتا ہے ۔مثال کے طور پر کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ یہودیوں کی سازش ہے اور پولیو کے قطرے پلا کر مسلمانوں میں بانجھ پن کا مرض پھیلایا جارہا ہے تاکہ امت مسلمہ کی افزائش نسل کو روکا جاسکے ۔یہ سوال بھی اُٹھایا جاتا ہے کہ آخر ان کافروں کو ہماری اتنی فکر کیوں ہے ؟اور بھی تو بہت سے موذی امراض ہیں مگر پولیو کے قطرے پلانے پر اتنے فنڈز کیوں دیئے جاتے ہیں؟ آج ہم ان تمام سوالات کے جواب ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے لیکن پہلے اس مرض کے تاریخی پس منظر کے بارے میں جان لیں۔1789ء میں پہلو بار اس وائرس کے بارے میں معلوم ہوا جو معذوری کا سبب بن سکتا ہے۔ 1840ء میں باضابطہ طور پر پولیو کے مرض کی تصدیق کی گئی ۔19ویں اور20ویں صدی میں پولیو ایک خوفناک مرض کی شکل میں سامنے آیا اور نوع انسانی کی بقا خطرے میں پڑ گئی ۔1916ء میں امریکی شہر نیو یارک میں 2000افراد مارے گئے اورمعذور ہونے والوں کا تو کوئی شمار ہی نہ تھا۔اعدادوشمار جمع کرنے پر معلوم ہوا کہ ہر سال 50لاکھ افراد پولیو کے باعث اپاہج ہورہے ہیں ۔1949ء میںJohn Endeisنے پولیو کا علاج دریافت کیا جس پر اسے نوبیل انعام دیا گیا ۔1950ء میں Jonas Salkنے پولیو کی ویکسین بنائی جسے ابتدائی طور پر اس نے خود اپنے خاندان پر آزمایا ۔بعد ازاں ٹرائل کا مرحلہ مکمل ہونے پر 1955ء میں اس ویکسین کو لائسنس جاری کردیا گیا۔Johnas Salkنے ادویات بنانے والی 6کمپنیوں کو یہ ویکسین بنانے کی اجازت دیدی۔جب ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران سوال کیا گیا کہ آپ نے اس ویکسین کے جملہ حقوق اپنے نام رجسٹرڈ کیوں نہیں کروائے تو اس نے کہا کیا کبھی کوئی شخص سورج پر بھی اپنا حق جتلا سکتا ہے ۔ایسے ہی عظیم انسانوں کی کاوشوں کی بدولت پولیو کا مرض کم ہوتا چلا گیا۔ہر سال معذور ہوجانے والے بچوں کی تعداد گھٹنے لگی۔1994ء میں امریکہ سے پولیو کا مکمل طور پر خاتمہ ہوگیا اور پھر یکے بعد دیگرے دیگر ممالک کو پولیو فری قرار دیا جانے لگا۔ 2003ء میں صرف 6ملک ایسے تھے جہاں پولیو کا مرض باقی رہ گیا۔ 2006ء میں مزید دو ممالک اس فہرست سے نکل گئے اور صرف 4ملک پولیو کی زد میں رہ گئے اور اب جبکہ پوری دنیا سے پولیو کو مٹا دیا گیا ہے تو صرف دو بدنصیب ملک اس سے مکمل طور پر نجات حاصل کرنے میں ناکام ہیں۔ پاکستان اور افغانستان۔
21 اپریل 2025 ء تک، پاکستان میں رواں سال کا چھٹا پولیو کیس رپورٹ ہوا ہے۔ ان میں سے چار سندھ، جبکہ پنجاب اور خیبر پختونخوا (KP) سے ایک، ایک کیس رپورٹ ہوا ہے۔ گزشتہ سال 2024ء میں مجموعی طور پر74 تصدیق شدہ پولیو کیس رپورٹ ہوئے، جن میں بلوچستان سب سے زیادہ متاثرہ خطہ رہا، جہاں 27 کیس سامنے آئے۔ سندھ میں 23، خیبر پختونخوا میں 22، جبکہ پنجاب اور اسلام آباد میں ایک، ایک کیس رپورٹ ہوا۔ انکے علاوہ، ملک بھر کے چاروں صوبوں اور آزاد جموں وکشمیر کے 127 مقامات سے حاصل کیے گئے 628 سے زائد سیوریج کے نمونوں میں پولیو وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہوئی ہے، جسکے نتیجے میں ملک بھر میں متاثرہ اضلاع کی مجموعی تعداد90 ہوگئی ہے۔ جبکہ 2025 میں، انہی 127 مقامات سے جمع کیے گئے 210 ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس پایا گیا، جس سے اس سال متاثرہ اضلاع کی مجموعی تعداد 66 ہوگئی۔
قومی ادارہ صحت میں قائم انسداد پولیو لیبارٹری کے مطابق، حالیہ پولیو کیس سندھ کے ضلع ٹھٹھہ سے رپورٹ ہوا ہے، جو سال 2025 کا چھٹا تصدیق شدہ کیس ہے۔ اس سے قبل، گزشتہ چند مہینوں کے دوران یہاں ماحولیاتی یا انسانی نمونوں میں وائلڈ پولیو وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہو چکی ہے۔
آب آتے ہیں ،سوالات کی طرف ؟پہلا اندیشہ ہے بے اولادی کا۔پولیو کے قطرے پلانے کی مہم کئی دہائیوں سے چلائی جارہی ہے ،جن بچوں نے اسی کی دہائی میں پولیو کے قطرے پی لیے،انکے ہاں بچوں کی قطار یہ بتانے کیلئے کافی ہے کہ بانجھ پن کے اندیشے بے بنیاد ہیں۔مگر اصل سوال یہ ہے کہ کافروں کو ہماری فکر کیوں ہے ؟یہ ہمارے بچوں کو معذوری سے بچانےکیلئے کیوں مہم چلاتے ہیں ،دال میں کچھ تو کالا ہے ۔درحقیقت پوری دال ہی کالی ہے ۔انہیں اپنے بچوں کی فکر ہے ۔پولیو کو ختم کرنے میں ایک صدی پر محیط طویل جدوجہد کارفرما ہے ۔اگر دنیا کے کسی کونے میں بھی یہ وائرس باقی رہ گیا اور یہاں سے کوئی ایک شخص یہ وائرس لیکر ان کے ملک میں پہنچ گیا تو سب کاوشیں رائیگاں چلی جائیں گی۔ وہ اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ بنانے کی غرض سے ہمارے بچوں کو معذوری سے بچانا چاہتے ہیں۔بعض والدین یہ سوال کرتے ہیں کہ اگر پولیو وائرس سے معذوری نہیں ہو رہی تو ان کے بچوںکیلئے بار بار ویکسینیشن کیوں ضروری ہے؟ اس کا جواب بہت سادہ ہے، وائرس کے پھیلاؤ یا جینیاتی تبدیلی کو روکنے کیلئے مستقل قوت مدافعت ناگزیر ہے، اور بار بار ویکسینیشن کا کوئی نقصان نہیں۔ لہٰذا، مکمل خاتمے تک ویکسینیشن کی بلند شرح کو برقرار رکھنا انتہائی ضروری ہے۔مگر ہمارے ہاں پولیو ورکرز کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور جذبہ جہاد سے سرشار یہ خدمت گار اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر خدمات سرانجام دے رہے ہیں ۔اگر صورتحال یہی رہی تو شاید کچھ عرصہ بعد افغانستان بھی پولیو فری قرار دے دیا جائے اور محض وطن عزیز معذوری کی دلدل میں دھنس جانے والا اکلوتا ملک رہ جائے۔ 21اپریل سے27اپریل تک پولیو کے قطرے پلانے کی مہم چلائی جارہی ہے۔ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے ،کیا آپ پاکستان کا مستقبل سمجھے جانے والے بچوں کو معذوری سے بچانا چاہتے ہیں یا پھر بے بنیاد افواہوں اور سازشی تھیوریوں پر یقین کرکے سب کچھ تباہ و برباد کرنے پر بضد ہیں۔