• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یکم مئی 1886 تا مئی 2025 محنت کشوں کا عالمی دن

تحریر…منظور رضی


اقوام عالم میں سترہویں اور اٹھارویں صدی کے اختتام تک بالخصوص یورپ میں ہونیوالی معاشرتی نا انصافیوں اور طبقاتی تقسیم نے آنیوالی انیسویں صدی کیلئے نئے سیاسی و سماجی نظام کی بنیاد رکھ دی تھی یورپ میں انقلاب فرانس (1789) کی ابتدائی نا کامی اور صنعتی انقلاب کے ساتھ ساتھ عظیم دانشوروں کی تحریروں نے یورپ کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک اور خاص طور پر امریکہ میں بھی اپنی جگہ بنانا شروع کر دی تھی سترویں صدی سے شروع ہونیوالی اس فکری تبدیلی نے جلد ہی اپنے خدوخال نمایاں کرنا شروع کر دینے اور بالخصوص مزدور طبقات میں یہ احساس شدت سے جنم ہونے لگا کہ ان کی محنت پر سرمایہ کا غلبہ ہے اور سرمایہ دار مزدوروں کو مشینوں کی طرح استعمال کرنا چاہتے ہیں اس فکر کو کارل مارکس جیسے عظیم فلسفی نے اپنی تحاریر اور کتابوں کے ذریعے عام لوگوں تک پہنچا دیا آج دنیا بھر کے مزدور انہی فکری نظریات اور اس ضمن میں دی گئی سیکڑوں قربانیوں کے طفیل اپنی زندگی زیادہ بہتر انداز میں گزار رہے ہیں اور ان ساری قربانیوں اور جدو جہد کا ثمر یکم مئی1886 میں امریکہ کے شہر شکاگو میں مزدوروں کی تحریک کو کچلنے اور درجنوں مزدوروں کی ہلاکت سے شروع ہوتا ہے جس نے آنیوالی صدی میں مزدوروں کیلئے بہتر اوقات کار آبرومندانہ زندگی گزارنے کی بنیاد میں رکھدی تھیں۔


یکم مئی 1886ء محنت کشوں کا عالمی دن ہے آج ٹھیک 139 سال قبل امریکہ کے صنعتی شہر شکاگو میں محنت کشوں نے اپنے اوقات کا ر مقرر کروانے کیلئے بے مثال اور لازوال جدوجہد کرتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ دیتے ہوئے 8 گھنٹے اوقات کارمقرر کر وائے تھے جبکہ ہمارے ملک پاکستان میں آج بھی مزدور12 اور 16 گھنٹے کام کرنے پر مجبور ہے دوسری جانب یورپ میں مزدور 6گھنٹے اوقات کار بہتر تنخواہ یا اجرت کے ساتھ خوشحال زندگی گزار رہے ہیں ۔


خود یورپ میں بڑی تبدیلی آئی ہے محنت کشوں نے کئی ایک مراعات حاصل کر لیں ہیں وہاں6 گھنٹے اوقات کار ہیں۔ تعلیم ، صحت اور رہائش گاہ میسر ہے مگر ہمارے ملک میں آج بھی 12 اور 16 گھنٹے کام لیا جاتا ہے ۔ ملک میں بھوک، غربت، جہالت، بیروزگاری عام ہے خودکشی کارجحان عام ہے پاکستان میں محنت کشوں کے حقوق غضب کئے جارہے ہیں ۔ حکمرانوں ، سرمایہ داروں ، مذہبی فرقہ پرستوں ، لسانی اور نسلی گروہوں نے محنت کشوں کو زبان ، مذہب کلچر، تہذیب اور سیاسی جماعتوں میں تقسیم در تقسیم کر دیا ہے ۔ ہر سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے لیبر ونگ ہیں ٹریڈ یونین تحریک کمزور ہو کر دم تو ڑ رہی ہے بلکہ اب تو نظریاتی ٹریڈ یو نین ختم ہوتی نظر آرہی ہے ،بعض لیبر لیڈر لیبر لارڈ بن گئے ہیں، وہ پیجار وکلچر ائیر کنڈیشنڈ یونین آفس میں بیٹھے ہیں مزدوروں سے براہ راست رابطہ ہی نہیں رہا۔ نجکاری کا ڈنکا بج رہا ہے، قومی اداروں کو فروخت کیا جا رہا ہے، ہلکی معیشت زوال پذیر ہے۔ آئیے ہم عہد کریں کہ یکم مئی 1886ء کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے یکم مئی 2024 ء کو ایک نئی تاریخ رقم کریں۔ 8 فروری 2024ء میں نئے الیکشن ہو گئے ہیں نئی حکومت اور صوبائی حکومتیں بھی بن چکی ہیں ۔ مگر ملک میں وہی غربت، وہی بے روزگاری، نجکاری، بھوک اور خود کشی کے اکثر مناظر دیکھنے کوملتی ہیں امید ہے ملک کے صدر آصف علی زرداری، وزیر اعظم شہباز شریف اور مریم نواز سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ اسی طرح بلوچستان کے اور KPK کے وزیراعلیٰ سمیت سندھ کے گورنر کامران ٹیسوری کی طرح سندھ کے عوامی گورنر کی طرح دیگر تین صوبوں کے گورنر اور وزیراعلیٰ مل کر ملک کو غربت ، جہالت، بے روزگاری، مہنگائی سے نجات دلانے کے حوالے سے یکم مئی 1886ء شکا گو محنت کشوں کی یاد تازہ کرتے ہو ئے کم از کم تنخواہوں میں اضافہ کریں گے اور اوقات کار میں بھی کمی کرتے ہوئے نئی مزدور پالیسی کا بھی اعلان کریں گے۔ میں اس مرتبہ یکم مئی کینیڈا کے شہر کیلگری میں کینیڈین ٹریڈ یونین کے کارکنوں اور محنت کا روں کے ساتھ منا رہا ہوں جبکہ ریلوے ورکرز یونین کے تحت ملک بھر میں یکم مئی بھر پور انتظام کے ساتھ منایا جائے گا۔


چند اشیائے ضرورت کو ترستے ہوئے لوگ - آخری جنگ کا اعلان تو کر سکتے ہیں ۔

ملک بھر سے سے مزید