عُمر رضوان
قابلِ تجدید توانائی میں عالمی دِل چسپی کے باوجود بجلی کی مسلسل فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے ’’بَیس لوڈ پاور‘‘ وقت کی اہم ضرورت ہے، جس کے لیے موسمی صُورتِ حال، شمسی تونائی اور ہوا جیسے قابلِ تجدید ذرائع پر انحصار کیا جاتا ہے۔ دوسری جانب بَیس لوڈ پاور پلانٹس مسلسل فعال رہتے ہوئے کم از کم طلب کو پورا کرنے کے لیے توانائی کی رسد کا ایک مستحکم ذریعہ ہیں۔
بَیس لوڈ پاور کے لیے عام ایندھن میں عام طور پر کوئلہ، قدرتی گیس، جوہری توانائی، ہائیڈرو پاوراورفرنس آئل وغیرہ شامل ہوتے ہیں اور یہ مِکس گرڈ کے استحکام کو یقینی بناتا ہے، جب کہ قابلِ تجدید پیداوار اُتار چڑھاؤ کا شکار رہتی ہے۔ اِن دنوں کوئلےسےصرفِ نظر کرنے والے کئی ممالک مختلف وجوہ کی بنا پر ایندھن کےاس اہم ذریعے کی طرف واپس جا رہے ہیں۔
مثال کے طور پر رُوس اور یوکرین کی حالیہ جنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والے توانائی کے بُحران کے باعث رُوس سے قدرتی گیس کی رسد رُک گئی ہے اور اس صُورتِ حال میں جرمنی نے موسمِ سرما میں توانائی کی رسد یقینی بنانے کے لیے کوئلے کے پلانٹس دوبارہ آپریشنل کر دیئے۔
اس ضمن میں دوسری نمایاں مثال چین کی ہے۔ قابلِ تجدید ذرائع میں اچھی خاصی سرمایہ کاری کے باوجود بجلی کی بہت زیادہ ضرورت، توانائی کے تحفّظ کے خدشات اور اقتصادی ترقّی کے ساتھ ساتھ چین میں کوئلے کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے۔
نیز، بھارت نے بھی بجلی کی بڑھتی ہوئی طلب پوری کرنے کے لیے کوئلے سے بننے والی بجلی کی پیداوار میں اضافہ کیا ہے۔ دِل چسپ بات یہ ہے کہ پولینڈ میں کوئلہ اب بھی توانائی کے مجموعی ذرائع کا ایک بڑا حصّہ ہے، جس سے مُلک کی تقریباً 70فی صد بجلی تیار کی جاتی ہے۔
پاکستان میں توانائی کی پیداوار کے تقریباً 47 فی صد وسائل درآمد کیے جاتے ہیں۔ ان میں فرنس آئل، ری گیسی فائیڈ لیکوئیفائڈ نیچرل گیس (RLNG) اور کوئلہ شامل ہے۔ عالمی سطح پر کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹس 36 فی صد بجلی پیدا کرتے ہیں، جو کہ بجلی کی پیداوار کے ذرائع میں سب سے بڑا ذریعہ بھی ہیں۔ تھر کے کوئلے کے سبب کوئلے میں خُود کفیل ہونے کے باوجود 2023ء میں پاکستان کا کوئلے کی درآمدات سے منسلک مالیاتی بوجھ 467 ملین امریکی ڈالرز تھا۔
تاہم، وہ وقت دُورنہیں کہ جب مقامی کوئلے کی جانب منتقلی سے نہ صرف درآمدی بِلز میں کمی واقع ہوگی بلکہ بجلی کی سَستی پیداوار سے صارفین کو فائدہ بھی ہوگا۔ لیکن ابھی بحث جاری ہے کہ آیا درآمد شدہ ’’سَب بٹومینس‘‘ کوئلہ مقامی ’’تھر لگنائٹ‘‘ کوئلے کے مقابلے میں بہتر ہے؟ اس حوالے سے تھر کے کوئلے کے کم معیار اور جلانے کے لیے زیادہ مقدار کو پیشِ نظر رکھنا ہوگا۔ یاد رہے، پاکستان میں توانائی کےحصول کے لیے کوئلے کا استعمال محض 13 فی صد ہے اور اِس میں بھی مقامی کوئلے کا حصّہ صرف 3 فی صد ہے۔
’’یوایس پاکستان سینٹر فور ایڈوانسڈ اسٹڈیز اِن انرجی‘‘ (USPCAS-E) نَسٹ کی جانب سے ”پاکستان میں توانائی کے تحفّظ کے لیے درآمدی کوئلے سے مقامی ذرائع میں منتقلی: مواقع اور آزمائشیں“ کے عنوان سے جاری کردہ وائٹ پیپر میں توانائی کی پیداوار کے لیے درآمدی کوئلے سے مقامی کوئلے پر ممکنہ منتقلی پر بحث کی گئی ہے۔ اس دستاویز میں توانائی کے تحفّظ کو یقینی بنانے اور لاگت کم کرنے کے حوالے سے ایک خاکہ بھی پیش کیا گیا ہے۔
نیز، تبدیلی کو پائےدار بنانے میں تیکنیکی، ماحولیاتی اور انفرا اسٹرکچر سے متعلق مسائل پر آراء بھی پیش کی گئی ہیں۔ تھر میں موجود کوئلے کے ذخائر کو ماہرین نے پاکستانی معیشت کے لیے ایک ممکنہ ”پلاٹ ٹویسٹر“ قرار دیا ہے۔ بَیس لوڈ تھر کے کوئلے کی جانب منتقلی کے بعد پانچ سال میں خاطرخواہ فوائد حاصل ہونا شروع ہوجائیں گے۔
ماہرین نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ درآمدی کوئلے کی وجہ سے پیداواری لاگت 20 روپے فی یونٹ سے زیادہ ہے، لیکن مقامی کوئلے کے استعمال سے یہ سات سے آٹھ روپے فی یونٹ یا اس سے بھی کم ہوسکتی ہے اور فی پلانٹ ایک سو ملین امریکی ڈالرز کی سرمایہ کاری اور اس کے مکمل پیداواری صلاحیت کے ساتھ کام کرنے سے سالانہ ایک ارب امریکی ڈالرز کی بچت کی جا سکتی ہے، جب کہ ری فائنڈ فرنس آئل پلانٹس کی تبدیلی سے قیمتوں کو مزید نیچے لانے میں مدد ملے گی۔
پاکستان کوئلے کے ذخائر کی وسیع صلاحیت کو بروئے کار لانے کے لیے کوششوں کا آغاز کر رہا ہے۔ تعداد کے لحاظ سے یہ ذخائر دُنیا میں ساتویں نمبر پر ہیں۔ ان کا تخمینہ 180 ارب ٹن لگایا گیا ہے، جن میں سے لگنائٹ کے سب سے بڑے ذخائر تھر میں پائے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ذخائر ممکنہ طور پر تقریباً 200 سال تک ایک لاکھ میگاواٹ بجلی پیدا کرسکتے ہیں۔ یہ ایک قابلِ اعتماد، کم قیمت اور مقامی توانائی کا ذریعہ ہے۔
ان وسائل کو استعمال کرکے نہ صرف ایندھن کی درآمدی لاگت نمایاں طور پر کم کی جاسکتی ہے، بلکہ توانائی کے نظام کے لیے ضروری مستحکم بَیس لوڈ کو بھی یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ تھر کے علاوہ پاکستان کے پاس لاکھڑا، ایسٹرن سالٹ رینج اور دُکی میں بھی کوئلے کے ذخائر موجود ہیں۔ درآمدی کوئلے سے پیدا ہونے والی بجلی کی فی الحال قیمت 20.02 پاکستانی روپےفی کلوواٹ آور(kWh) ہے۔ اس کے مقابلے میں دیسی کوئلے کے استعمال سے یہ لاگت 14.19 پاکستانی روپے فی کلو واٹ آور ہوجاتی ہے۔
پاکستان میں درآمدی کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹس میں ساہی وال پاور پلانٹ، پورٹ قاسم پاورپلانٹ، چائنا حب پاوراورلکی الیکٹرک پاور شامل ہیں۔ مقامی کوئلے کے استعمال سے بجلی بنانے والے پاور پلانٹس میں اینگرو تھر، تھر انرجی، تھر کول بلاک 1 اور تھل نووا شامل ہیں۔ اسی طرح جام شورو پاور کمپنی لمیٹڈ (جے پی سی ایل)، جس کی ابتدائی منصوبہ بندی 2013 ء سے پہلے کی گئی تھی، 660 میگاواٹ کے دو یونٹس پرمشتمل ہے۔
اس پلانٹ کا ڈیزائن 80 فی صد درآمدی کوئلہ اور 20 فی صد مقامی کوئلہ استعمال کرنے کے لیے تجویز کیا گیا تھا۔ کے۔ الیکٹرک اس منصوبے کی 100 فی صد مقامی کوئلے پر منتقلی کے لیے سرگرمِ عمل ہے، جس کا مقصد کراچی کو سستی توانائی فراہم کرنا اورحکومت پرسبسڈی کا بوجھ کم کرنا ہے۔
یونٹ 1کے کمرشل آپریشن میں تاخیر ہوئی، جس کا آغاز نومبر 2023ء میں ہونا تھا۔ اگر یہ پاور پلانٹ 100 فی صد مقامی کوئلے پر منتقل ہوجاتا ہے، تومنصوبے کی 30 سالہ عُمر کے مطابق بچت کا تخمینہ 2.54 ارب امریکی ڈالرز لگایا گیا ہے۔
اس منتقلی کے لیے 402 ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی، جس میں پاور پلانٹ میں تیکنیکی ترمیم، ریلویز کی توسیع اور کوئلہ خُشک کرنے والے آلات کی تنصیب پرمشتمل ایک جامع انفرا اسٹرکچر شامل ہے، جب کہ منصوبے کی تبدیلی حکومتِ پاکستان کے ایندھن کی انڈیجنائزیشن کے اسٹرٹیجک ہدف میں نمایاں طور پر پیش رفت لاسکتی ہے، جیسا کہ ’’نیشنل الیکٹرسٹی پلان 2023ء‘‘ میں بیان کیا گیا ہے۔ (مضمون نگار، گِرڈ ٹیکنالوجی کے ماہر ہیں)