• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بجٹ، پاکستان اور IMF کا 700 ارب کے مزید ٹیکس وصولی کیلئے مختلف آپشنز پر غور، پہلا گرین سکوک بانڈ جاری

اسلام آباد، کراچی (مہتاب حیدر، اسٹاف رپورٹر)پاکستان اور عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف ) نے 700ارب روپے کے مزید ٹیکس وصولی کیلئے مختلف اقدامات پر غور شروع کردیا ہے ، دوسری جانب ملک میں پہلا گرین سکوک بانڈ جاری کردیا گیا ہے ، وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ دنیا پاکستان کے مائیکرو اکنامک استحکام سے مطمئن ہے، معیشت مستحکم ہوگئی ہے، آج پاکستان کا پہلا ڈومیسٹک سکوک بانڈ متعارف کیا جا رہا ہے جس کے بعد مجموعی اسلامک قرضوں کا حجم 14فیصد بڑھ گیا ہے،ادھر اپریل میں بھی کرنٹ اکاونٹ سرپلس رہا،اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق اپریل کے مہینے میں کرنٹ اکاؤنٹ ایک کروڑ 70لاکھ ڈالر سرپلس رہا۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان اور آئی ایم ایف آئندہ مالی سال 2025-26 کےبجٹ میں اضافی 700 ارب روپے حاصل کرنے کے لئےٹیکس اور نفاذ کے اقدامات پر غور کر رہے ہیں۔ 2 جون کو پارلیمنٹ میں 2025-26 کے بجٹ کے اعلان کے ساتھ ہی حکومت نے آئی ایم ایف سے تنخواہ دار طبقے، تمباکو اور مشروبات کے شعبوں کے لیے ٹیکسوں میں اصلاحات (ریشنلائزیشن) کی درخواست کی ہے۔ آئی ایم ایف نے تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس کی شرحوں میں کمی پر اعتراض اٹھایا ہے اور اگر 0.2 ملین سے 0.4 ملین روپے ماہانہ آمدنی والے متوسط طبقے کے لیے شرحوں کو کم کیا جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں متوقع زیادہ ریونیو کے بارے میں پوچھا ہے۔ سالانہ منصوبہ بندی رابطہ کمیٹی (اے پی سی سی) کا اجلاس 26 مئی (پیر) کو متوقع بجٹ کے لیے میکرو اکنامک فریم ورک اور ترقیاتی بجٹ کی قومی اقتصادی کونسل (این ای سی) کو سفارش کرنے کے لیے منعقد ہوگا۔ تمباکو کے شعبے میں، (سگریٹ کے پیکیٹ کی ) کم از کم قانونی قیمت (ایم ایل پی) جو فی الحال 162.25 روپے فی پیکٹ ہے، کو بڑھانے کا امکان ہے کیونکہ اس وقت 80فیصد سے زائد برانڈز ایم ایل پی سے کم یا قدرے زیادہ قیمت پر فروخت ہو رہے ہیں۔ لہٰذا، ایک آپشن یہ ہے کہ موجودہ دو درجوں اور وفاقی ایکسائز ڈیوٹی (ایف ای ڈی) کی شرحوں میں تبدیلی کیے بغیر ایم ایل پی میں اضافہ کیا جائے۔ وزارت خزانہ اور ایف بی آر نے آئندہ بجٹ کے لیے 14307ارب روپے کے سالانہ ریونیو اکٹھا کرنے کا ہدف پیش کیا ہے۔ تاہم، برائے نام نمو کی بنیاد پر اختلافات کے باعث آئی ایم ایف اور پاکستانی فریق دونوں ریونیو اکٹھا کرنے کے ہدف کے اعداد و شمار پر متفق نہیں ہو سکے۔ برائے نام نمو کے تخمینوں میں فرق کی وجہ سے 300ارب روپے کا فرق پایا جاتا ہے۔ حکومت نے پیش گوئی کی ہے کہ برائے نام نمو کے نتیجے میں 13556ارب روپے حاصل ہوں گے، لیکن آئی ایم ایف کا اصرار ہے کہ ایف بی آر 13200ارب روپے سے زیادہ اکٹھا نہیں کر سکے گا، جس کی وجہ سے تخمینوں میں 300 ارب روپے سے زیادہ کا فرق پیدا ہو گیا ہے۔ اگر ایف بی آر کے 14307 ارب روپے کے ٹیکس ہدف اور 13556 ارب روپے کی بنیادی وصولی پر اتفاق ہو جاتا ہے، تو حکومت کو اضافی ٹیکسیشن اقدامات اور مؤثر نفاذ کے ذریعے 700 ارب روپے اکٹھے کرنے ہوں گے۔ نفاذ کے حوالے سے، غیر عمل شدہ تمباکو کے لیے گرین لیف تھریشنگ (جی ایل ٹی) پر ایڈوانس ٹیکس کی ادائیگی کی نگرانی ایک ممکنہ ریونیو کا ذریعہ ہو سکتا ہے۔ آئندہ بجٹ میں کم از کم قانونی قیمت (ایم ایل پی) میں اضافے پر غور کیا جا سکتا ہے۔ تمباکو کی صنعت کو کم از کم قانونی قیمت کی مسلسل خلاف ورزی کے پیش نظر ایک اہم چیلنج کا سامنا ہے۔ یہ مسئلہ کم از کم قانونی قیمت سے کم یا قدرے زیادہ قیمت پر غیر قانونی سگریٹ برانڈز

کی بہتات کی وجہ سے مزید سنگین ہو گیا ہے، جو صحت کے سنگین خطرات اور معاشی نقصانات کا باعث بن رہا ہے۔ پاکستان میں اسمگل شدہ اور ٹیکس چوری شدہ سگریٹوں کا معاشی اثر بہت گہرا ہے۔ قانونی سگریٹ کی صنعت کا حصہ سکڑنے سے، حکومت کی تمباکو ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدنی میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے، جو تقریباً 300 ارب روپے سالانہ ہے۔ صحت کے نقطہ نظر سے، سگریٹوں کی بڑھتی ہوئی دستیابی اور سستی سگریٹ نوشی کی شرحوں میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔ پاکستان کو پہلے ہی تمباکو کے استعمال سے صحت کے ایک اہم بوجھ کا سامنا ہے، جہاں سالانہ 100,000سے زائد اموات تمباکو سے متعلقہ بیماریوں کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ نوجوانوں میں تمباکو نوشی کا پھیلاؤ خاص طور پر تشویشناک ہے، کیونکہ کم عمری میں شروعات طویل مدتی لت اور اس سے منسلک صحت کی پیچیدگیوں کے امکان کو بڑھاتی ہے۔ ٹی ٹی ایس اور لازمی تصویری صحت کی وارننگ (جی ایچ ڈبلیوز) کے نفاذ کے باوجود، عمل درآمد کمزور ہے۔ مشروبات کے شعبے میں ٹیکس کی شرحوں میں کمی پر بات چیت جاری ہے، لیکن آئی ایم ایف نے اس پر اعتراض اٹھایا ہے کہ اگر اس شعبے میں ریفنڈز پیدا ہوئے تو ایف بی آر ان سے کیسے نمٹے گا۔ ایف بی آر کسی بھی شعبے میں ریفنڈز پیدا کرنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہتا۔ جمعہ کے روز ترکی سے آئی ایم ایف کی ٹیم نے بلوچستان کی صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت کے بعض اخراجات سے متعلق ایک ورچوئل اجلاس میں شرکت کی۔ اپریل میں بھی کرنٹ اکاونٹ سرپلس رہا،اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق اپریل کے مہینے میں کرنٹ اکاؤنٹ ایک کروڑ 70 لاکھ ڈالر سرپلس رہا۔


اہم خبریں سے مزید