ریاض احمد پرواز، فیصل آباد
گزشتہ برس دسمبر میں لاہور، اسلام آباد، راول پنڈی، ڈیرہ غازی خان اور فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے زرعی شعبے سے وابستہ ماہرین کے بارہ رکنی وفد نے چین کے شہر گوانگ چو میں منعقدہ ایک زرعی کانفرنس میں شرکت کی۔
وفد میں راقم کے علاوہ زرعی یونی ورسٹی، فیصل آباد کے ڈاکٹر عبدالواحد، ڈاکٹر شہزاد بسرا، ڈاکٹر عبدالوکیل، ڈاکٹر سردار عالم، ڈاکٹر اشفاق واحد، ڈی جی خان کے ڈاکٹر جاوید اقبال، پنجاب یونی ورسٹی، لاہور کے ڈاکٹر ارشد جاوید، ڈاکٹر تہمینہ انجم، بارانی یونی ورسٹی، راول پنڈی کے ڈاکٹر محمد اشرف، قائد اعظم یونی ورسٹی، اسلام آباد کے ڈاکٹر نظیف اللہ اور ایگری کلچر ڈپارٹمنٹ، بہاول پور کی رشنا منیر شامل تھیں۔
پروگرام کے مطابق وفد کے تمام اراکین وقتِ مقررہ پر علّامہ اقبال انٹرنیشنل ائرپورٹ، لاہور پہنچے، یہاں سے ہمیں براستہ دبئی چین جانا تھا۔ جدید ترین سہولتوں سے آراستہ، دبئی کا بین الاقوامی ہوائی اڈا اپنی مثال آپ ہے۔ انتہائی پُرکشش اور خُوب صُورت ائرپورٹ پر قدم رکھتے ہی یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کہکشاؤں کی دنیا میں آگئے۔
چار سُو رنگوں، روشنیوں کے سیلاب سے آنکھیں خیرہ ہوئی جاتی ہیں۔ دبئی ائرپورٹ پر ہمارا قیام سات گھنٹے کا تھا، جوہم نے ائرپورٹ کے ٹرانزٹ لاؤنج میں گھومتے پِھرتے ہی گزار دیئے۔ یہاں کی ڈیوٹی فری شاپس اور شاپنگ مالز کا بھی جواب نہیں۔ دنیا بھر کی ہر چیز مل جاتی ہے۔ سجی سجائی، دیدہ زیب دکانیں، دامانِ نظر کو مقناطیسی اثرات سے اپنی طرف کھینچتی ہیں۔ مشرقی و مغربی اقوام کے، انواع و اقسام کے رنگ برنگ لباس پہنے لوگ، چہل قدمی اور خریداری کرتے نظر آتے ہیں۔
خیر، دبئی سے دوپہر گیارہ بجے امارات ائرلائنز کے ذریعے روانہ ہوئے اور سات گھنٹے کے سفر کے بعد چین کے تیسرے بڑے شہر، گوانگ چو ’’Guanzhou‘‘کے ہوائی اڈے پر اُترے، جہاں سبز لباس میں ملبوس ہمارے چینی میزبان، پہلے ہی سے ہمارے منتظر تھے۔ انھوں نے ہمارا پرتپاک خیر مقدم کیا، روایتی انداز میں علیک سلیک کے بعد گاڑیوں میں بٹھا کر ہوٹل کی طرف روانہ ہوگئے۔ گوانگ چو شہر میں واقع ہوٹل کینٹن (Canton) کی 34منزلہ عمارت کی سولہویں منزل پر ہمارے لیے کمرے بُک تھے، جہاں ہمیں چھے روز قیام کرنا تھا۔
دراصل، گوانگ چو شہر کا پرانا اور تاریخی نام کینٹن ہے، جو جنوبی چین کے وسط میں واقع ہے۔ یہ ہانگ کانگ کے شمال مغرب میں ایک سو بیس کلو میٹر کے فاصلے پر دریائے پرل کے کنارے آباد ہے۔ واضح رہے، اس دریا میں جہاز رانی بھی ہوتی ہے۔
گوانگ چو چین کا اہم صنعتی و تجارتی شہر ہے، جو 206قبل مسیح میں آیاد ہوا۔ یہ چینی کے برتنوں اور ایمبرائیڈری کی صنعت کے لیے مشہور ہے۔ چوں کہ مسلمان عرب تاجر تجارت کی غرض سے گوانگ چو آتے رہتے تھے، تو اُن ہی کے ذریعے اس خطّے میں اسلام بھی متعارف ہوا۔
چینی باشندے، زرعی ٹیکنالوجی اور زراعت کے فروغ کے حوالے سے ہر سال ایک بین الاقوامی زرعی کانفرنس کا انعقاد کرتے ہیں، جس میں دنیا بھر کے ماہرین کو شرکت کی دعوت دی جاتی ہے اور اسی ضمن میں ہمیں بھی یہ دعوت دی گئی تھی۔ کانفرنس کا موضوع Allelopathy for Sustainable Development theory to practice تھا۔
کانفرنس کے افتتاحی سیشن میں سب سے پہلے مندوبین کے تعارف ہوا، پھر گروپ فوٹو سیشن، اُس کے بعد کانفرنس کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ افتتاحی سیشن کے بعد دوسرے روز سے صبح آٹھ بجے سے دس بجے تک پلینری سیشن کے بعد ٹیکنیکل پروگرام رکھے جاتے۔ علاوہ ازیں، کانفرنس کے شرکاء کے لیے ’’فیلڈ ٹرپس‘‘ کا بھی خصوصی بندوبست کیا گیا تھا۔ فیلڈ ٹرپ کے لیے کانفرنس کے مندوبین، خصوصاً دوسرے ممالک سے آئے ہوئے مہمانوں کی سہولت اور رہنمائی کے لیے نقشے اور دیگر معلوماتی مواد فراہم کیا گیا۔
ہمیں بھی ایک ٹورسٹ گائیڈ کی رہنمائی میں گوانگ چو شہر کے مختلف نواحی علاقوں کے علاوہ یونی ورسٹی ٹاؤن کا چھوٹا سا ویلیج دیکھنے کا موقع ملا۔ یونی ورسٹی ٹاؤن، دریائے پرل کے ڈیلٹا سے قریب ہے، جس کی علیحدہ مقامی ثقافت جنوبی چین کی نمائندگی کرتی ہے۔
گزشتہ تیس برسوں کے دوران ان علاقوں کی پیداوار میں چاول، گنّا، کیلا، لیچی، اور مختلف اقسام کی مچھلیاں شامل ہیں، جب کہ زرعی معیشت پر مبنی صنعتوں نے بھی یہاں خُوب پیر جمائے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ آج یہ شہر دنیا میں صنعتی معیشت اور تجارت کے لحاظ سے ایک اہم مرکز ماناجاتا ہے۔ یہاں کی جدید زرعی نمائش گاہ بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے، جس کی سرپرستی ’’گوانگ چو ایگری کلچرل اکیڈمی‘‘ کرتی ہے۔ قریب ہی ایک زرعی فارم پر سوہانجنا( Moringa ) کے پتّے اور جڑیں پلاسٹک کے لفافوں میں فروخت کی جارہی تھیں۔
جدید نباتاتی تحقیقات کے نتیجے میں معلوم ہوا ہے کہ سوہانجنا بلڈپریشر، پٹّھوں کی کم زوری دُور کرنے اور ذہنی توانائی بحال کرنے کے ضمن میں ٹانک کی حیثیت رکھتا ہے۔ فارم پر ایک خاص پھل بھی نظر آیا، جسے میجک فروٹ (طلسماتی پھل) کہتے ہیں۔ یہ پھل دنیا کے کسی اور مُلک میں نہیں پایا جاتا۔
سُرخ رنگ کا یہ پھل پہلے ترش لیموں جیسا اور منہ میں چند لمحے رکھنے کے بعد میٹھا محسوس ہوتا ہے۔ زرعی فارم سے کچھ ہی فاصلے پر جدید ترین گوانگ چو لائبریری واقع ہے، جہاں روزانہ دس سے پندرہ ہزار افراد مطالعے کی غرض سے آتے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں چینی عوام کا مرکزی لائبریری میں روزانہ آنا، اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ چینی عوام مطالعے اور عِلم کی اہمیت و افادیت سے اچھی طرح و اقف ہیں۔
چھے روزہ کانفرنس اختتام پذیر ہوئی، تو ہمارے پاس صرف دودن باقی بچے تھے اور اس دوران شہر کے بہت سے تاریخی مقامات دیکھنے تھے، لہٰذا فوری طور پر ہوٹل سے نکل کر مختلف سڑکوں سے گزرتے ہوئے، مسلمانوں کے قدیم قبرستان کی راہ ہولیے۔ قبرستان میں فاتحہ خوانی کے بعد ذرا آگے بڑھے تو ایک شان دار مسجد نظر آئی، جس کے بارے میں بتایا گیا کہ اس وسیع و عریض مسجد میں دس ہزار کے قریب نمازیوں کی گنجائش ہے۔
اتفاق سے ہم جمعے کے روز وہاں پہنچے تھے اور تھوڑی ہی دیر میں جمعے کی نماز ہونے والی تھی، لہٰذا وفد کے ارکان نے بھی وہیں نماز جمعہ ادا کی۔ نمازکے بعد مسجد سے نکلے، تو سامنے ہی فوڈ اسٹریٹ موجود تھی، جہاں ٹھیلوں اور وینڈر گاڑیوں پر کھانے پینے کی مختلف اشیاء سجی تھیں۔ ایک طرح سے یہ کھانے پینے کا عارضی جمعہ بازار تھا اور یہاں کھانے کی سب ہی دکانیں مسلم فوڈ یعنی حلال کھانوں کی تھیں۔ تکّہ کباب، کوئلوں پر بھنے ہوئے مرغ مسلم کے علاوہ طرح طرح کے حلال چائنیز کھانے تیار ہوتے دیکھے اور خوف شکم سیر بھی ہوئے۔
آخری روز ہم نے ہانگ کانگ کے قریب واقع چینی شہر شیخچن (Shenzhen) کی سیّاحت کے لیے وقف کر رکھا تھا، لہٰذا صبح ناشتے کے فوری بعد ہی ٹکٹ حاصل کرکے ٹرین میں سوار ہوگئے اور تقریباً دو گھنٹے کی مسافت طے کر کے شیخچن پہنچے اور پھر وہاں سے مقامی میٹرو ٹرین کے ذریعے ورلڈ ونڈو (World Window) جا پہنچے۔ ورلڈ ونڈو، عجائبات کی دنیا اور اپنی طرز کی منفرد اور جداگانہ تفریح گاہ ہے۔
یہاں پر اٹلی کے شہر روم کے کلوزیم، اٹلی ہی کے شہر وینس کی سمندری نہریں اور دنیا کے سات عجائبات میں سے ایک، اٹلی کے پیسا ٹاور کے ماڈلز بنائے گئے۔ یہاں لندن کے ٹیمز برج، فرانس کے شہر، پیرس کے ایفل ٹاور، مصری شہر قاہرہ کے ایدم، کینیڈا کی نیاگرہ آب شار، نیو یارک کے مجسّمہ آزادی، ٹوئن ٹاور، واشنگٹن کے وائٹ ہاؤس، کیپٹل ہلز، بھارت کے شہر آگرہ کے تاج محل، افریقی ماڈل ویلیج، آسٹریلیا کے شہر سڈنی کے ہاربر برج اور اوپیرا کے ماڈلز بھی پوری آب و تاب کے ساتھ اس طرح جلوہ گرہیں کہ یکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے، یہاں تک کہ انسان خود کو ان مقامات پر موجود اور ان مناظر کو اپنے ماحول میں، کہیں آس پاس ہی محسوس کرنے لگتا ہے۔