• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کشیدگی میں کمی اور جنگ بندی کا کریڈٹ امریکا کی شمولیت اور معاونت کو جاتا ہے اور اب دونوں ممالک کے دیرینہ تنازعات کے حل کا ایک نیا موقع سامنے آیا ہے۔ ترجمان نے واشنگٹن میں پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ اگرچہ ماضی میں کئی بار یہ تنازعات حل نہیں ہوسکے لیکن اب امید کی ایک نئی کرن نظر آرہی ہے۔ پاک بھارت مذاکرات کس ملک میں ہوں گے ابھی یہ بات واضح نہیں ہوئی۔ قوی امکان یہی ہے کہ یہ کسی عرب ملک میں ہونگے، امریکی صدر پاک بھارت جنگ بندی کا کریڈٹ لینے کے بعد عالمی رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتوں میں کئی بار اس کا برملا اظہار کرچکے ہیں تاہم یہ بات طے ہے کہ بھارت اگر مذاکرات کی میز پر آیا تو وہ بچا کھچا کشمیر بھی اپنے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کرے گا، پانی کے حوالے سے بھی وہ پہلے ہی نصف صدی قبل سندھ طاس معاہدے کے ذریعے اپنے حصے سے زیادہ پانی حاصل کر چکا ہے اور پاکستان کے احتجاج کے باوجود مقبوضہ کشمیر میں کئی ڈیم بنا کر بجلی کی وافر مقدار حاصل کرلی ہے اور پانی سے زراعت کو بھی فروغ دے رہا ہے۔ ایک ہم ہیں کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں، شمالی علاقے جات میں اس مقام سے جہاں سے پانی کا رخ بھارت کی طرف جاتا ہے اس دوران سو میل کے علاقے میں اگر ڈیم بنا لیںتو پانی کے بھارت میں لالے پڑ جائیں مگر اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہی محسوس نہیںکی گئی ۔ سوال یہ ہے کہ حالیہ بھارتی جارحیت میں مداخلت کے حوالے سے کیا امریکہ کا بھارت اور پاکستان کے اس تنازع سے کوئی تعلق نہیں تھا؟ کم از کم شروعات میں تو یہی کہا گیا تھا جیسا کہ جے ڈی وینس نے دعویٰ کیا مگر پھر کچھ بدلا۔ اچانک ٹرمپ میدان میں آئے، کشیدگی کم کی اور فوری جنگ بندی کا اعلان کر دیا۔ نتیجتاً بھارت کو عالمی سطح پر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا اور وہ اپنی ساکھ اور ہائپ کھو بیٹھا۔ بھارت کا اس بے وقوفانہ اقدام میں کتنا بڑا نقصان ہوا ہے اس کا اسے بخوبی ادراک ہے مگر وہ اب بھی اعتراف حقیقت سے نظریں چرا رہا ہے۔ اس سو دو زیاں میں جہاں چین کی عسکری ٹیکنالوجی وائرل ہو گئی وہاں اس کی ٹیکنالوجی کی اصابت بھی اس جنگی تجربے سے کھل کر عیاں ہوگئی اور چین کو عسکری اعتبار سے بھی دنیا پر برتری حاصل ہوگئی ۔

جب پاکستان نے چینی ساختہ میزائل اور JF 17 لڑاکا طیارے استعمال کیے اور بھارتی رافیل طیارے مار گرائے تو چینی دفاعی کمپنیوں کے حصص بڑھ گئے، جب ’’آپریشن سندور‘‘ کو ’’آپریشن تندور‘‘ میں بدل دیا گیا تو دنیا کو پتہ چل گیا کہ دفاعی ٹیکنالوجی کے میدان میں اب اسکی دال زیادہ دیر تک گلنے والی نہیں۔ انکے ہتھیاروں پر اب دنیا زیادہ بھروسہ نہیں کرئیگی۔

پاکستان، جو ایک ذمہ دار ایٹمی طاقت ہے، نے بھارت کی طرف سے براہموس جیسے ایٹمی میزائل کے استعمال کے باوجود ذمہ داری کا مظاہرہ کیا اور ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال آخری آپشن رکھا اگر پاکستان بھی جواباًایسا کرتا تو آج دنیا ایٹمی جنگ میں کود چکی ہوتی۔ یہ پاکستان کا حق ہے کہ وہ اسرائیل کو بھارتی جنگی جنون میں ملوث ہونے پر مسکت جواب دے چونکہ اسرائیل اس جنگی جنون میں بھارت کے ساتھ شریک رہا ، اس براہ راست شرکت پر اسے کوئی سخت جواب دیا جانا ہماری عسکری قیادت کا فرض بھی ہے اور اس پر قرض بھی۔

امریکہ کے پاس واحد حل یہی تھا کہ فوری جنگ بندی کروائی جائے اور یہ کام اس نے فوراً کیا، یہ کہتے ہوئے کہ دنیا کو ’’ایٹمی جنگ‘‘ نہیں چاہیے۔ امریکہ نے جنگ بندی کے فوراً بعد جنیوا میں اہم بیٹھک منعقد کی اور تجارتی مذاکرات کی میز پرصرف چند گھنٹوں میں ٹیرف کی پابندیاں نرم کردیں اور چین کے خلاف جن اقدامات کا اعلان کیا تھا ان پر نظر ثانی کردی اس میں امریکہ نے اپنی عزت بچائی اور چین کے خلاف جو یک طرفہ ٹیرف قائم کیا تھا اسے بھی قابلِ قبول حد تک کم کردیا۔ چین نے بھی جوابی اقدام کے طور پر امریکہ پر جوابی ٹیرف کم کرکے معاملات کو سدھار لیا جسکے نتیجے میں چھ سو ارب ڈالر کی منجمد کی گئی تجارت دوبارہ بحال ہوگئی۔ اگرچہ اس جنگ کے بعد معاملات بڑی حد تک بہتر ہوچکے ہیں لیکن انڈین وزیراعظم کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق اب بھی مسلسل نام نہاد’’ جشن فتح‘‘ مناتے ہوئے جگہ جگہ عوامی جلسوں میں پاکستان کو کھنڈر بنانے کے دعوے کرتے ہوئے پھرسے سبق سکھانے کی گیدڑ بھبکیاں دے رہے ہیں۔ پاکستانی سپاہ بالخصوص ہماری فضائیہ ہر لمحہ بیدار و فعال ہے اور اسی طرح پاک بحریہ بھی مستعد ہے، بری فوج بھی دشمن سے دو بدو لڑنے کو بے چین ہے جبکہ قوم بھی ہر محاذ پر اپنی سپاہ کے شانہ بشانہ لڑنے اور اپنا کردار ادا کرنے کو بے تاب ہے۔ ہمیںبھارتی مداخلت کے ثبوت عالمی فورمز پر پیش کرنے چاہئیں تاکہ بھارت کا اصلی چہرہ اور کردار عالمی سطح پر ظاہر ہوکر اس کے ناپاک ارادے اور عزائم عالمی دنیا کے سامنے بے نقاب ہو جائیں۔ اس کیلئے حکومتی کوششوں کو سراہاجانا بھی ضروری ہے کہ فوری طور پر جناب بلاول بھٹو زرداری کو عالمی رائے اپنے حق میں کرنے کا ٹاسک دے کر کئی ملکوں میں بھیجا گیا، جس میں حکومت اور جناب بلاول بھٹو زرداری کافی حد تک کامیاب رہے اور اس کے ساتھ ہی ہمارے وزیراعظم اپنے اہم رفقاء کے ہمراہ جن میں فیلڈ مارشل صاحب بھی شامل ہیں ان چار ملکوں کےدورے پر ہیں جنہوں نے اس مشکل گھڑی میں پاکستان کی حمایت کرتے ہوئے ہمیں اپنے بھرپور تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی تھی۔ یہ ایک احسن قدم ہے اس سے پاکستان کی ساکھ عالمی سطح پر مضبوط ہوگئی ،بھارت پردباؤ مزید بڑھ جائیگااور وہ اپنی دھمکیوںتک ہی محدود رہے گا ۔

تازہ ترین