اسلام آباد (اسرار خان) برآمد کنندگان کا پالیسیوں کے تضاد پر شدید ردِ عمل، چاول، سونا، جوس اور پھلوں کے برآمد کنندگان نے شکایات کے انبار لگادئیے ۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان کی پارلیمانی تجارتی کمیٹی کو جمعہ کے روز چاول، پھل، سونا اور جوس برآمد کرنے والوں کی جانب سے شکایات کے انبار کا سامنا کرنا پڑا، جنہوں نے خبردار کیا کہ پالیسیوں میں بار بار تبدیلی اور ریگولیٹری رکاوٹیں ملک کی نازک برآمدی ترقی کو بری طرح متاثر کر رہی ہیں۔ ایم این اے شرمیلا فاروقی نے کمیٹی کو بتایا کہ چاول کے برآمد کنندگان نے وزیراعظم کو خط لکھا ہے اور انہوں نے بار بار سامان کی ترسیل میں تاخیر اور حد سے زیادہ انسپیکشن کی وجہ سے ہونے والے نقصان کا حوالہ دیا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ وہ کنٹینرز کھول کر پیکنگ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر رہے ہیں۔ ہمیں محکمہ تحفظ نباتات (ڈی پی پی) میں ایک باصلاحیت ڈائریکٹر جنرل کی ضرورت ہے۔ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ایم این اے جاوید حنیف خان نے چاول کی برآمدات میں رکاوٹوں پر تشویش کا اظہار کیا اور محکمہ تحفظِ نباتات (ڈی پی پی) کو ہدایت دی کہ کنٹینرز کی جانچ کے طریقہ کار کو بہتر بنایا جائے تاکہ مزید نقصانات سے بچا جا سکے۔ کمیٹی نے سونے اور زیورات کی برآمدات و درآمدات پر اچانک پابندی پر تشویش کا اظہار کیا، جو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے تحفظات کے بعد 5 مئی کو وفاقی حکومت نے عائد کی تھی۔ سیکرٹری کامرس جاوید پال نے کہا کہ ایک خصوصی کمیٹی اب اس معاملے کا جائزہ لے رہی ہے اور انہوں نے ’’سنگل ونڈو سسٹم‘‘ کے تحت تجارت کو ڈیجیٹلائز کرنے کی تجویز پیش کی۔ تاہم، انہوں نے واضح کیا کہ حتمی فیصلے وفاقی کابینہ ہی کرے گی۔ جوس مینوفیکچررز نے کمیٹی کو بتایا کہ اگر انہیں ٹیکس چھوٹ دی جائے تو 26 ممالک کو ان کی برآمدات موجودہ 15 ملین ڈالر سے دگنی ہو سکتی ہیں۔