تضادستان میں ہر دور کو نازک دور کہا اور سمجھا جاتا ہے، اسی وجہ سے نازک دور کی اہمیت ہی ختم ہوگئی ہے وگرنہ حقیقت یہ ہے کہ اب واقعی ایک نازک لمحہ ہے، اس لمحے میں مستقبل کی سیاست طے ہونی ہے۔
عام تاثر یہ ہے کہ ملک کے اندر بڑےاور غلط فیصلے کمزور حکومتوں نے کئے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پہاڑ جیسی جو بڑی غلطیاں ہوئی ہیں وہ طاقتور حکمرانوں، مقبول لیڈروں اور بہادر جرنیلوں نے کی ہیں۔ ہم نے حال ہی میں پہلی بار بھارت سے واضح طور پر جنگ جیتی ہے حکومت بہت طاقتور ہوگئی ہے، فوج مقبول ہوگئی ہے، سنا ہے کہ اگلے چند مہینوں میں مزید معاشی خوشخبریاں ملنے والی ہیں ۔ چین اور افغانستان سے معاملات شاندار لیول تک جانے کی اطلاعات ہیں۔ اپوزیشن فی الوقت کمزور ترین پوزیشن میں ہے گویا اس وقت مقتدرہ اور اس کے سیاسی پارٹنر طاقت اور اقتدار کے نصف النہار پر ہیں انہیں بظاہر کوئی بڑا چیلنج درپیش نہیں۔ یہی وہ نازک لمحہ ہے، جس میں طاقت کے نشے میں آ کر، غلط سیاسی فیصلے کئے جاتے رہے ہیں اور اب بھی اندیشہ ہےکہ بھارت سے فتح کے گھمنڈ میں سیاسی حریفوں کو شکست فاش دینے اور راستے کے سب کا نٹے چننے کے بعد جو اعتماد اور غرور پیدا ہوگا اسی میں غلط فیصلوں کا احتمال ہے۔
کمزور حکمرانوں سے سیاست اور ریاست کے مستقبل کو اتنا نقصان نہیں پہنچا جتنا مضبوط اور مقبول سیاستدانوں اور جرنیلوں سے پہنچا ہے۔ پاکستان کی تاریخ دیکھ لیں قائد اعظم محمد علی جناح جتنا مقبول، مضبوط اور اصول پسند حکمران نہ آج تک آیا ہے نہ آئے گا، لیکن انہیں مس گائیڈ کرکے دو صوبائی وزرائے اعلیٰ کو رخصت کروا دیا گیا۔ یوں منتخب حکمرانوں کو گھر بھیجنے کی روایت پڑ گئی۔ نوابزادہ لیاقت علی خان پاکستان کے بانیوں میں سے تھے قائد ملت کہلاتےتھے، مقبول بھی تھے اور مضبوط بھی۔ پارٹی کی صدارت اور وزارت عظمیٰ دونوں کو اپنے پاس رکھ کر انہوں نے غلط روایت ڈالی جس سے آج تک چھٹکارا نہیں مل سکا۔ گورنر جنرل غلام محمد خادم ملت کہلاتے تھے دنیا بھر میں انہیں پاکستان کا مرد آہن کہا جاتا تھا انہوںنے قومی اسمبلی توڑ کر اسمبلیاں تحلیل کرنے کی غلط روایت کا آغاز کیا اور پھر اپنا اثرو رسوخ بروئے کار لاکر جسٹس منیر سے اپنی مرضی کافیصلہ بھی کروا لیا۔ یوں نظریہ ضرورت کی بنیاد پڑی اور اصولوں پر فیصلے مفقود ہوگئے۔
فیلڈ مارشل ایوب خان آئے تو قائد اعظم کے قائم کردہ پارلیمانی نظام کا بستر گول کردیا اور اسکی جگہ امریکی صدارتی نظام نافذ کرکے خود ہی صدر بن گئے۔ ان سے پہلے اسکندر مرزا بھی ایک مرد آہن ہوا کرتے تھے جو حکومتیں بناتے اور توڑتے تھے، انہوں نے 1956ء کا آئین منسوخ کرکے خود ہی جنرل ایوب کو وزیر اعظم نامزد کیا تھا یعنی خود اپنی اور اپنے بعد آنے والے تمام سیاستدانوں کی قبر کھودی تھی۔ یہ نظام ایک ہفتہ بھی نہ چل سکا اور اسکندر مرزا کو ان کے یار غار ایوب خان نے ہمیشہ کیلئے برطانیہ جلا وطن کردیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے آئین دیا عوام کو جمہوری شعور دیا مگر ان کا اپوزیشن کے ساتھ سلوک آمرانہ اور ظالمانہ تھا۔ جنرل ضیاء الحق نے تو اپنی طاقت سے ریاست کے نظریاتی، سماجی اور سیاسی تارو پود ہی بکھیر ڈالے۔ جنرل مشرف آئے تو ایک آئیڈیل بلدیاتی نظام لے کر آئے مگر ایک جعلی اور غیر مقبول جماعت کی سرپرستی انہیں لے ڈوبی۔ یہ تھی طاقتور حکمرانوں کے خلاف چارج شیٹ کہ کس کس طرح انہوں نے جمہوری سیاست کو آلودہ کیا اور طاقت سے ملک کو بہتر بنانے کی بجائے اسے خراب کرگئے۔
دوسری طرف کمزور حکمران ہمارا مذاق تو بنتے رہے مگر انہوں نے ملک کی سیاست کا وہ نقصان نہیں کیا جو طاقتور حکمرانوں نے کیا۔ خواجہ ناظم الدین کو ہم زیادہ کھانے کی وجہ سے ہاضم الدین کہہ کر ان کا مذاق اڑاتے رہے مگر ڈھاکہ کے نواب خاندان کا یہ فرزند خلوص کا مجموعہ بن کر آج بھی ہمارے لئے مثال ہے۔ محمد علی بوگرہ کو امریکہ سے بلوانے کی وجہ سے انہیں امریکی ایجنٹ کے طعنے ملتے رہے لیکن انہوں نے ہمیشہ عقل اور دلیل سے خارجہ پالیسی بنانے کی بات کی۔ چودھری محمد علی بھی کمزور وزیر اعظم تھے مگر تمام تر کمزوری کے باوجود وہ پاکستان کو 1956ء کا پہلا متفقہ آئین دے گئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس آئین پر مشرقی پاکستان کے لوگ بھی متفق تھے۔ بے نظیر بھٹو، نواز شریف اور عمران خان پر جو مرضی الزامات لگیں وہ کبھی طاقتور حکمران نہیں تھے، انکے اوپر ہمیشہ مقتدرہ اور عدلیہ کی تلوار لٹکتی رہی۔ اس لئےکمزور حکمرانوں سےکیا گلہ؟ اصل گلہ توطاقتور حکمرانوں سے ہے۔ آج حکمران پھر طاقتور ہیں اس لئے یہ ہر طرح سے ایک نازک لمحہ ہے۔ آج کے طاقتور حکمرانوں کو ملک کے ماضی، حال اور مستقبل کو دیکھ کر فیصلے کرنا ہوں گے۔ ماضی میں مخالفوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا تجربہ کامیاب نہیں ہوا ،اب بھی اسکی کامیابی کا کوئی امکان نہیں ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ موجودہ سیٹ اپ کا ماضی کی حکومتوں سے تقابل کرنا بنتا ہی نہیں لیکن تاریخ کا سبق تو سب کے سیکھنے کیلئے ہوتا ہے۔ موجودہ سیٹ اپ اس لحاظ سے منفرد اور مختلف ہے کہ اس پر پہلے قبولیت کی مہر تو لگی ہوئی تھی مگر مقبولیت کا انگوٹھا ثبت نہیں تھا گویا یہ سیٹ اپ طاقتور تھا مگر تھا’ ہوا‘ میں، اس کے پائوں زمین پر نہیں تھے۔ پاک بھارت جنگ نے اس سیٹ اپ کو مقبولیت سے بھی سرفراز کردیا ہے یہ سیٹ اپ اب قبولیت اور مقبولیت دونوں کا مرقع ہے ، یہ موجودہ وقت میں بہت ہی طاقتورحیثیت کا حامل ہے اور چونکہ ماضی میں طاقتور حکمران ہی غلط فیصلے کرتے رہے ہیں اس لئے یہ نازک مرحلہ ملک کیلئے امتحان کا ہے لیڈر کی دانش اسی لمحے میں کئے گئے فیصلوں پر منحصر ہوتی ہے۔ پاکستان اس وقت سفارتی اور دفاعی لحاظ سے کئی برسوں کے بعد عروج پر ہے مگر یہ عروج چند ماہ رہے گا اور اس کا انحصار حکمرانوں کے ان فیصلوں پر ہوگا جس سے وہ عروج کو تادیر برقرار رکھ سکیں۔ اگر اندرونی استحکام اور معاشی استحکام قائم کرنے میں دیر کی گئی تو وقتی عروج پھر سے مایوسی اور زوال میں تبدیل ہو جائے گا۔
جنگ میں فتح سے جذبات بدلے ہیں سیاست نہیں بدلی۔ تاثرات میں تبدیلی آئی ہے تلخ حقائق میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ نفرت کم ضرور ہوئی ہے یہ محبت میں نہیں بدلی۔ ووٹ بینک پر گہری چپ ضرور طاری ہوئی ہے مگر اس کے خیالات میں تبدیلی نہیں آئی۔ وہ وقتی طور پر عمران کو بھول کر جنگ میں فتح پر تالیاں بجا رہے ہیں ۔تالیوں کا شور ختم ہوگا، تماشائی واپس مڑیں گے تو انہیں پھر جیل کا دروازہ اور قیدی نمبر 804 یاد آجائے گا۔