آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی جانب سے معروف گلو کار سجاد علی کی ماسٹر کلاس کا انعقاد اسٹوڈیو ٹو میں کیا گیا، جس میں صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ، ایگزیکٹو ڈائریکٹر دانیال عمر، ہیڈ آف میوزک اکیڈمی احسن باری اور ڈائریکٹر اکیڈمیز ارمان رحیم سمیت آرٹس کونسل المنائی کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
ماسٹر کلاس میں صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے معروف گلوکار سجاد علی کو گلدستہ پیش کرکے خوش آمدید کہا۔
سجاد علی نے کہا جو گانے والے ہوتے ہیں، وہ سیکھتے نہیں اور جو سیکھتے ہیں، وہ اکثر صحیح نہیں گاتے۔ گلوکار پیدا ہوتے ہیں، یہ ایک قدرتی صلاحیت ہوتی ہے۔ گائیکی میں جیسی ان پٹ دی جائے، ویسی ہی آؤٹ پٹ حاصل ہوتی ہے، آج کے بچوں میں پیشن کا نام موڈ ہے و ہ صرف موڈ پر انحصار نہ کریں بلکہ ایک حکمتِ عملی اپنائیں، کیونکہ موڈ وقتی ہوتا ہے جبکہ اسٹریٹیجی دیرپا نتائج دیتی ہے۔
سجاد علی نے اپنی کامیابی کے راز کو ڈسپلن قرار دیتے ہوئے کہا کہ میں نے کئی باصلاحیت لوگ دیکھے، لیکن کامیاب وہی ہوئے جنہوں نے ڈسپلن اپنایا۔ ہم ٹیلنٹ کے بجائے ڈسپلن کو اہمیت دیں گے۔
میوزک طالب علم کے سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ روز اپنے گھر پر ریکارڈنگ کرتے ہیں اور خود کو سنتے ہیں۔ ریکارڈنگ کے ذریعے اندازہ ہوتا ہے کہ کہاں غلطی ہو رہی ہے۔ سرگم کے ہر سر کا اپنا مطلب ہے۔ گلوکار کو 'کیوں'، 'کہاں' اور 'کیسے' جیسے سوالات کے جواب تلاش کرنے چاہئیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر میں گلوکار نہ ہوتا تو استاد ہوتا۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں سیکھنے کا رجحان کم ہے۔ لوگ پہلے نتیجہ چاہتے ہیں، سیکھنے کو بعد میں اہمیت دیتے ہیں۔
سجاد علی نے جدید دور کے میوزک کے اثرات پر بھی کہا کہ ہماری سماعت سے زیادہ ہمیں میوزک دیا جا رہا ہے۔ یہ تکنیک کبھی جنگی قیدیوں پر استعمال ہوتی تھی، آج ہمارے گھروں میں عام ہو گئی ہے۔ پہلے گائیکی کا مخصوص وقت ہوتا تھا، اب میوزک کے بغیر دن مکمل نہیں ہوتا۔