• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نصراللہ گڈانی کے قتل کو ایک سال گزر چکا۔ کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز (سی پی این ای) کی پریس فریڈم رپورٹ برائے 2024ء اور 2025ء میں نصراللہ گڈانی کی تصویر دیکھ کر خیال آیا کہ سی پی این ای کی ایسی ہی رپورٹ اگلے سال بھی آئے گی لیکن اگلے سال نصراللہ گڈانی کی بجائے کسی اور کی تصویر رپورٹ میں شامل کی جائے گی کیونکہ پاکستان میں صحافیوں کو قتل کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس سال سی پی این ای نے اپنی پریس فریڈم رپورٹ میں سات مقتول صحافیوں کی تصاویر شائع کی ہیں۔ آئندہ رپورٹ کیلئے کچھ مقتول صحافیوں کی تصاویر کا بندوبست کیا جا چکا ہے اور کچھ کی تصاویر کا بندوبست ان کے قتل کے بعد ہو جائے گا۔ 3جون کو سی پی این ای نے اسلام آباد میں اپنی پریس فریڈم رپورٹ کی تقریب ِرونمائی کا اہتمام کیا۔ اس رپورٹ کا ٹائٹل بڑا معنی خیز ہے ایک ٹی وی اسکرین پر اخباری کاغذ سے بنی فاختہ بیٹھی ہے۔ فاختہ اور ٹی وی اسکرین دونوں زنجیروں میں جکڑے نظر آ رہے ہیں اور نیچے سی پی این ای لکھا ہوا ہے۔ شائد یہی وجہ تھی کہ اس تقریب میں ہمیں ملک کے نامور صحافی تو نظر آئے لیکن حکومت کا کوئی نامور چہرہ نظر نہیں آیا کیونکہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں صحافت آزاد ہے اس تقریب میں کئی مقررین نے ذکر کیا کہ آج کل حکومت میڈیا سے بڑی خوش نظر آتی ہے کیونکہ پاکستان کے میڈیا نے بھارت کے خلاف جنگ میں دشمن کے پراپیگنڈے کا منہ توڑ جواب دیا لیکن ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس 2025ء کے مطابق پاکستان پچھلے سال 152ویں نمبر پر تھا لیکن اس سال چھ درجے گر کر 158ویں نمبر پر آ گیا ہے اور بھارت 159ویں نمبر سے 151ویں نمبر پر چلا گیا۔ اس کا مطلب ہے کہ بھارت کا میڈیا جھوٹا ہے غیر ذمہ دار ہے لیکن وہاں پریس فریڈم میں آٹھ درجے بہتری آئی ہے اس لئے پریس فریڈم کے محاذ پر بھی بھارت کو شکست دینے کی ضرورت ہے۔ پریس فریڈم کے محاذ پر پاکستان نیچے اور بھارت اوپر کیسے گیا؟ اس سوال کا جواب سی پی این ای کی پریس فریڈم رپورٹ میں موجود ہے۔ سی پی این ای نے پچھلے ایک سال میں قتل ہونے والے سات صحافیوں کی تصاویر رپورٹ میں شائع کی ہیں۔ ان سات میں سے تین صحافی پریس کلب کے صدور تھے۔ صدیق مینگل کو 3مئی 2024ء کو بم دھماکے کا نشانہ بنایا گیا وہ خضدار پریس کلب کے صدر تھے۔ 18جون 2024ء کو موٹر سائیکل سواروں کے ہاتھوں فائرنگ سے شہید ہونے والے خلیل جبران لنڈی کو تل پریس کلب کے صدر تھے۔ 21مئی 2024ء کو گھوٹکی میں شہید کئے جانے والے نصراللہ گڈانی میر پور ماتھیلو پریس کلب کے صدر تھے۔ جب بھی کسی صحافی پر حملہ ہوتا ہے تو پولیس کہتی ہے کہ یہ ذاتی دشمنی تھی یا پھر کسی دہشت گرد تنظیم پر ذمہ داری ڈال دی جاتی ہے۔ نصراللہ گڈانی کا معاملہ بالکل مختلف تھا جب اسے گولیاں ماری گئیں تو پورے سندھ کو پتہ تھا کہ اس حملے کے پیچھے کون ہے؟ ان کے خاندان، اخبار کے ساتھیوں اور دوستوں نے ایک مقامی ایم این اے کے بیٹوں پر فائرنگ کا الزام لگایا کیونکہ نصراللہ گڈانی پر پہلے بھی حملہ ہو چکا تھا۔ اسے مئی 2023ء میں بھی گرفتار کیا گیا تھا علاقے کے بااثر وڈیرے، پولیس اور انتظامیہ سب اس کے خلاف تھے کیونکہ وہ کبھی میر پور ماتھیلو میں ٹائون لائبریری بند کرنے پر احتجاج کرتا تھا کبھی مقامی جنگل کی لکڑی کاٹنے والوں کو بے نقاب کرتا اور کبھی مقامی ایم این اے کے بیٹوں کو ملنے والے پولیس پروٹوکول پر سوال اٹھاتا۔ کسی ہندو لڑکی کو اغوا کر لیا جاتا تو گڈانی کی انگلی علاقے کے ایک بااثر سیاست دان کی طرف اٹھ جاتی جس پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ ہندو لڑکیوں کو اغوا کرکے ان کا مذہب تبدیل کراتا ہے۔ گڈانی کے جنازے پر یہ متنازعہ شخصیت بھی موجود تھی اور آنسوئوں کے ساتھ کہہ رہی تھی کہ نصراللہ گڈانی میرے خلاف بہت بولتا تھا لیکن وہ بڑا بہادر انسان تھا۔ سوشل میڈیا پر اس کا یہ فقرہ بڑا مشہور ہوا ’’وڈیرہ، مائی فٹ‘‘ حکومتیں بدلنے کےساتھ سیاسی وفاداریاں بدلنے والے یہ مفاد پرست وڈیرے نصراللہ گڈانی جیسے صحافیوں کی گستاخیاں برداشت نہیں کر سکتے۔ یہ وڈیرے جن طاقتور لوگوں کے اشارے پر سیاسی وفاداریاں تبدیل کرتے ہیں ان سے ارشد شریف جیسے صحافی برداشت نہیں ہوتے۔ ارشد شریف کے قتل پر سپریم کورٹ میں سماعت شروع ہوتی ہے اور پھر التواء کا شکار ہو جاتی ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی جاتی ہے کہ ارشد شریف کے قتل کی انکوائری کرائی جائے، اس درخواست کی کئی سماعتوں کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا جاتا ہے۔ پھر یہ محفوظ فیصلہ کبھی منظر عام پر نہیں آتا اور اسی لئے پاکستان پریس فریڈم انڈیکس میں بھی نیچے گرتا ہے اور ورلڈ جسٹس پراجیکٹ 2024ء کی رینکنگ میں 129ویں نمبر پر کھڑا نظر آتا ہے جبکہ بھارت کا نمبر 79واں ہے۔ ڈیموکریسی انڈیکس 2024ء میں پاکستان کا نمبر 124واں اور بھارت کا 41واں ہے۔ کرپشن انڈیکس میں پاکستان کا نمبر 135واں اور بھارت کا 96واں ہے۔ آزادی صحافت دراصل عدلیہ اور پارلیمینٹ کی آزادی سے جڑی ہوئی ہے۔ جس ملک میں عدلیہ انصاف نہیں دیگی اور پارلیمینٹ بغیر بحث مباحثے کے پیکا ترمیمی بل کو منظور کر کے اخبارات، ٹی وی چینلز اور عام شہریوں کو پابندیوں کی زنجیروں میں جکڑ دیگی وہاں آپ بھارت سے جنگی محاذ پر تو جیت جائیں گے لیکن آزادی صحافت، انصاف اور جمہوریت کے محاذ پر نہیں جیت سکتے۔ سی پی این ای کی پریس فریڈم رپورٹ میں پیکا قانون کو صحافیوں کی آواز دبانے کا ہتھیار قرار دیا گیا ہے اور بتایا گیا کہ کس طرح اس قانون کے تحت جھوٹے مقدمات قائم کرکے صحافیوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔ رپورٹ میں ’’روزنامہ جموں و کشمیر‘‘ کے پورے عملے کے خلاف مظفر آباد میں درج ہونے والی ایف آئی آر اور کوئٹہ پریس کلب کی جبری بندش سمیت ایسے کئی واقعات کا ذکر کیا گیا ہے جن کی وجہ سے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں پاکستان کی مزید تنزلی کا خطرہ ہے اور اس تنزلی سے عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا۔ رپورٹ میں ان ٹی وی اینکرز کا ذکر نہیں کیا گیا جنہیں گزشتہ چند ماہ کے دوران مختلف ٹی وی چینلز سے آف ایئر کیا گیا۔ ہو سکتا ہے ان سب کا ذکر اگلی رپورٹ میں آ جائے لیکن بہتر ہو گا کہ حکومت اور تمام ریاستی ادارے مل کر پاکستان کو آئین کے مطابق چلانے پر توجہ دیں اور پیکا جیسے غیر آئینی قوانین کا استعمال بند کر دیں۔ آج آپ پاکستانی میڈیا کی تعریف کر رہے ہیں یہ میڈیا اتنا ہی اچھا ہے تو پھر اس پر اعتماد کر کے دیکھیں اور اسے زنجیریں پہنا کر رقص نہ کروائیں۔

تازہ ترین