• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حرام وحلال اور جنگلی وپالتو نَر ومادہ کے اختلاط سے پیدا ہونے والے جانوروں کی قربانی کا حکم

تفہیم المسائل

سوال: کیا آسٹریلوی گائے کی قربانی جائز ہے، اُس کے بارے میں یہ افواہ بھی ہے کہ اُسے حرام جانور کے مادّہ منویہ سے حاملہ کرایا جاتا ہے تاکہ اس سے دودھ کی زیادہ مقدار حاصل ہو۔ ایسی گایوں کا شرعی حکم کیا ہے ؟،(محمد ابدال )

جواب: آسٹریلوی گائے کی قربانی جائز ہے۔ فقہی رائے کا مدار اَفواہوں یاسنی سنائی باتوں پر نہیں ہوتا، صرف اُن باتوں پر ہوتا ہے جوقطعی ثبوت یا مشاہدے سے ثابت ہوں۔ چنانچہ مُسلّمہ اصول ہے :’’ یقین شک سے زائل نہیں ہوتا‘‘۔

تاہم اگر یہ بات درست بھی ہو ، تب بھی یہ گائیں حلال ہیں، ان کا گوشت کھانا اور دودھ پیناجائز ہے۔ اس لئے کہ جانورکی نسل کا مَدار ماں(یعنی مادہ) پر ہوتا ہے۔ علامہ برہان الدین المرغینانی حنفی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ اور پالتو (Pet)اور جنگلی(Wild) جانورکے ملاپ سے پیدا ہونے والا بچہ ماں (مادہ)کے تابع ہوتا ہے، کیونکہ بچے کے تابع ہونے میں ماں ہی اصل ہے، یہاں تک کہ اگر بھیڑیئے نے بکری پر جفتی کی، تو اس ملاپ سے جو بچہ پیداہوگا، اس کی قربانی جائز ہے ‘‘۔

اس کی شرح میں علامہ محمد بن محمود ’’عنایہ شرحِ ہدایہ ‘‘ میں لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ کیونکہ بچہ ماں کاجزء ہوتا ہے اور اسی لئے آزاد یا غلام ہونے میں ماں کے تابع ہوتا ہے (یہ اُس دور کی بات ہے جب غلامی کا رواج تھا)۔

یہ اس لئے کہ نَر کے وجود سے نطفہ جداہوتاہے اوروہ قربانی کا محل نہیں ہے اور ماں کے وجود سے حیوان جدا ہوتا ہے اور وہ قربانی کا محل ہے، پس اُسی کا اعتبار کیا گیا ہے، (فتح القدیر ،جلد9،ص:532)‘‘۔

علامہ علاؤالدین کاسانی حنفی لکھتے ہیں: ترجمہ: قربانی پالتو جانوروں کی تین جنسوں میں سے کسی ایک جنس سے ہوسکتی ہے اور وہ یہ ہیں: بکری، اونٹ اور گائے، بیل، اس میں ہر نوع کا نَر اور مادہ، خصی اور آنڈو سب شامل ہیں، کیونکہ اُس جنس کا اطلاق اِن سب پر ہوتا ہے اور وجوبِ زکوٰۃ کے حوالے سے بھیڑ بکری اور بھینس گائے کی جنس میں شامل ہے۔ وحشی جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے کیونکہ قربانی کا وجوب شریعت سے معلوم ہوا اور شریعت مانوس چیز کی قربانی واجب کرتی ہے۔

اگر جانور وحشی اور پالتو کے ملاپ سے پیدا ہو تو اعتبار ماں یعنی مادہ کا ہے، سو اگر ماں پالتو ہے تو قربانی جائز ہے، ورنہ نہیں ، یہاں تک کہ اگر پالتو گائے پر وحشی بیل جفتی کرے تو اس سے پیدا ہونے والے بچے کی قربانی جائز ہے اور اس کے برعکس اگر جنگلی گائے پر پالتو بیل جفتی کرے تو اس سے پیدا ہونے والے بچے کی قربانی جائز نہیں ہے، کیونکہ جانوروں کی نسل میں ماں کا اعتبار ہے، کیونکہ وہ ماں کے وجود سے جدا ہوتا ہے اور وہ قیمت رکھنے والا حیوان ہے، جس کے ساتھ احکام متعلق ہوتے ہیں اور نَر سے صرف نطفہ خارج ہوتا ہے اور اس کے ساتھ احکام متعلق نہیں ہوتے۔

یہی وجہ ہے کہ غلامی اور آزادی میں بچہ ماں کے تابع ہوتاہے ، سوائے اس کے کہ بنی آدم میں بچے کی شرافت اور ضائع ہونے سے بچانے کے لیے وہ باپ کی طرف منسوب ہوتا ہے، ورنہ اصل یہی ہے کہ وہ ماں کی طرف منسوب ہو۔ اور کہا گیا: جب نَر ہرن پالتو بکری پر جفتی کرے اور اس سے بکری پیدا ہو تو اُس کی قربانی جائز ہے اور اگر ہرن پیدا ہو تو اس کی قربانی جائز نہیں، اگر گھوڑی پر وحشی گدھا جفتی کرے اور گدھا پیدا ہو تو اس کا گوشت نہیں کھایا جائے گا اور اگر گھوڑا پیدا ہو تو اس کا حکم گھوڑے کے گوشت کا ہوگا۔

اگر وحشی ہرن کو مانوس کیا یا جنگلی بیل کو مانوس کیا اور ان کی قربانی دی، تو جائز نہیں ہوگی، کیونکہ یہ اصل اور جوہر کے اعتبار سے وحشی ہیں اور کسی نادر عارض کی وجہ سے اصل کا حکم باطل نہیں ہوتا، اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمانے والا ہے ،(بدائع الصنائع، جلد 5،ص:103-104)‘‘۔

آج کل مغرب میں انسانوں کو اسی حیوانی درجے میں پہنچا دیاگیا ہے، اِسی لیے پاسپورٹ، تعلیمی اَسناد اور دیگر دستاویزات میں باپ کے بجائے ماں کا نام پوچھا جاتا ہے، کیونکہ بہت سے لوگوں کو اپنے باپ کا پتاہی نہیں ہوتا، جبکہ اسلامی تعلیمات کی رُو سے انسانوں میں نسب باپ کی طرف سے چلتا ہے۔ میں نے ایک آرٹیکل میں پڑھا تھا کہ ڈنمارک میں ہوٹل میں مہمانوں کے نام ہدایت نامے میں یہ درج ہوتا ہے کہ آپ عملے کے کسی فر دسے باپ یا شوہر کا نام نہیں پوچھیں گے۔